کھیل،ہمہ جہت ترقی کا گیٹ وے

چین کے شہر چھنگ دو میں اس وقت ورلڈ یونیورسٹی گیمز کامیابی سے جاری ہیں جن میں 113 ممالک اور خطوں سے تعلق رکھنے والے ساڑھے چھ ہزار طلباء ایتھلیٹس 18 کھیلوں کے 269 مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو کھیلوں کا یہ عالمی ایونٹ نوجوانوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور دوستی کو بڑھانے کے لیے ایک پل کا کردار نبھا رہا ہے۔ ان گیمز کو دوستانہ تبادلے کی ایک ایسی زبردست سرگرمی قرار دیا جا سکتا ہے جس کا مقصد دوستی، بھائی چارہ،مستقل مزاجی، تعاون اور جدوجہد کے جذبات کو حقیقی معنوں میں اُجاگر کرنا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ چھنگ دو ورلڈ یونیورسٹی گیمز نے کھیلوں کے ذریعے اتحاد کو فروغ دینے، عالمی برادری کے لیے مثبت توانائی کو یکجا کرنے اور عالمی چیلنجوں کا مشترکہ جواب دینے کی اہمیت کو عمدگی سے فروغ دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کھیل نہ صرف عالمی سطح پر روحانی روشن خیالی فراہم کرتے ہیں بلکہ عہد حاضر، زمانے اور تاریخ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مفید حوالہ بھی فراہم کرتے ہیں۔اتحاد کی بدولت ہی، مشترکہ طور پر عالمی چیلنجوں جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، مسلح تنازعات،غربت و افلاس، خوراک کے بحران اور دیگر مسائل سے نمٹںا ممکن ہے، جو یقیناً ایک بہتر مستقبل کی تشکیل کی کلید ہیں۔انہی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے گیمز کے دوران چھنگ دو ورلڈ یونیورسٹی کانفرنس میں چھنگ دو اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ بقائے باہمی، مشترکہ خوشحالی اور یونیورسٹی گیمز کی ترقی کو فروغ دیں تاکہ انسانی ترقی کو آگے بڑھایا جا سکے اور عالمی امن کا تحفظ ممکن ہو سکے۔”یونیورسٹی اسپورٹس، ایک رنگا رنگ دنیا کو گلے لگانا” کے عنوان سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں 30 ممالک اور خطوں سے 530 سے زائد ماہرین اور اسکالرز نے شرکت کی۔اعلامیے میں تجویز دی گئی ہے کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں اپنے طلباء کی ہمہ جہت ترقی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائیں، طلباء کی جسمانی اور ذہنی صحت کو مسلسل بہتر بنائیں، اور ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ہمت، ثابت قدمی اور خود کو مسلسل چیلنج کرنے اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے جیسی نمایاں خصوصیات اپنائیں۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی اسپورٹس ڈویلپمنٹ سے ہر ملک اور خطے، ہر یونیورسٹی اور ہر طالب علم کو فائدہ ہوگا۔یہ دستاویز تمام ممالک کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اعلی معیار کے یونیورسٹی کھیلوں کے وسائل دنیا بھر میں نوجوانوں کو فائدہ پہنچائیں.اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی یونیورسٹی کے کھیلوں کی ترقی کی بنیادی محرک قوت ہے اور یونیورسٹی کے کھیلوں کی ڈیجیٹل تبدیلی ایک جدید ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹیوں نے انسانی تہذیب کے روشن چراغ کے طور پر کام کیا ہے۔آج بھی یونیورسٹیاں کھیلوں سے جسمانی صحت کو بہتر بنانے، شخصیات کی تشکیل، قوت ارادی کو مضبوط بنانے، صلاحیت کو متحرک کرنے اور طلباء کی ہمہ جہت ترقی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔اس ضمن میں چینی حکومت ” اسپورٹس فار آل” کے اصول پر عمل پیرا ہے اور یونیورسٹی گیمز کے مقابلے کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے مستقل کوششیں جاری ہیں. چین میں ہر سال قومی یونیورسٹیوں کے اوسطاً 100 سے زائد طلباء کے کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں، جن میں ایک ہزار سے زیادہ یونیورسٹیاں شامل ہوتی ہیں۔مزید برآں، کھیلوں اور تعلیم کے امتزاج کو مضبوط بنا کر، چینی یونیورسٹیوں نے اپنے کھلاڑیوں کی کامیابی میں بھرپور حصہ ڈالا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹوکیو 2020 اولمپک کھیلوں میں چینی وفد میں 72 چینی یونیورسٹیوں کے 252 طالب علم ایتھلیٹس شامل تھے جن میں سے 48 نے سونے کے تمغے، 32 نے چاندی اور 15 نے کانسی کے تمغے جیتے۔

دوسری جانب چین نے بین الاقوامی یونیورسٹی گیمز میں بھی ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے اور متعدد باریونیورسٹی گیمز کی میزبانی کی ہے، جس نے بین الاقوامی یونیورسٹی گیمز کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔چین نے یونیورسٹی گیمز کے بین الاقوامی تبادلوں کو فروغ دینے اور عالمی یونیورسٹی گیمز کی ترقی میں فعال طور پر حصہ لیا ہے.چینی نوجوان بھی کھیلوں کو دنیا بھر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہمی تفہیم، مواصلات اور دوستی کو بڑھانے کے لئے پل کے طور پر دیکھتے ہیں۔یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے اعلیٰ تعلیمی نظام کے حامل ملک کی حیثیت سے چین مقامی اور عالمی سطح پر یونیورسٹی گیمز کی ترقی پر زیادہ توجہ دے گا جس سے بین الاقوامی امن اور ترقی کے فروغ کے مشترکہ مقصد میں مدد ملے گی۔