میں مختلف تعلیمی درجے کے بچوں سے وقتاً فوقتاً یہ پوچھتی رہتی ہوں کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کب کیا اور یہ ایٹم بم کس نے بنایا۔ اکثر کی طرف سے لا علمی کا ردعمل دیکھ کر کافی دکھ ہوتا رہا ہے۔ پھر ایسے بچوں کو ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ کیساتھ ساتھ میرا پورا لیکچر ڈاکٹر عبد القدیر کی شان میں سننا پڑتا ہے۔ اور جب تک مجھے تسلی نہیں ہو جاتی کہ انہیں محسنِ پاکستان کا سبق اچھی طرح ذہن نشین ہو گیا ہے ان کی جان نہیں چھوٹتی۔
لیکن سمجھ نہیں آتی تھی کہ بچے اتنے لاعلم کیوں ہیں اور یہ لاعلمی محض پاکستان کے ایٹمی طاقت کے حوالے سے نہیں ہے اور بھی بہت سے جنرل نالج کے سوالات ہیں جن کا ا نہیں پتہ نہیں ہوتا۔ جیسے پاکستان کا نقشہ، اس کے شمال مغرب میں کیا واقع ہے یا پاکستان کے ارد گرد بسنے والے ممالک کون سے ہیں۔ ا س لاعلمی کی وجوہات پر بات کریں گے تو لمبی ہو جائے گی۔ ہم مڈل حصے میں پیک کے امتحانات میں تاریخ و جغرافیہ کا امتحان لیتے ہی نہیں۔ اور جس مضمون کا امتحان نہ لیا جانا ہو وہ بچوں کیساتھ ساتھ اساتذہ کے ذہنوں سے بھی اتر جاتا ہے۔
آج دہم کی مطالعہ پاکستان کی کتاب سامنے میز پر رکھی تھی اسکو اٹھایا اور کھول کر دیکھا ،پہلے باب کے پہلے صفحہ پر مسٹر بھٹو کی تصویر ان کے کارناموں کیساتھ موجود تھی۔ مگر مشرقی پاکستان کے حوالے کوئی بات نہیں ہے۔ پھر ضیاء الحق ،جونیجو، بے نظیر ، نواز شریف اور عمران خان تک تمام حکومتوں کا سلسلہ ۔ آخر میں پاکستان ایٹمی طاقت کب بنا۔ اس ٹاپک کو کھولا اور بڑے شوق کیساتھ ڈاکٹر صاحب کی تصویر کو صفحہ پر تلاش کیا لیکن تصویر نہیں تھی پھر ٹاپک پڑھا اور ڈاکٹر صاحب کے نام کو تلاش کیا مگر ڈاکٹر صاحب کا نام نظر نہیں آیا۔ میں سمجھی مجھے غلطی لگی ہے۔ پھر سے پڑھا لیکن مجھے پھر نام نظر نہ آیا ۔ میں سمجھی شاید میں نام کی تلاش میں جلدی جلدی اور بے چینی سے پڑھ رہی ہوں، اس لیے نام نظر سے نہیں گزرتا ، اب ہر سطر پر انگلی رکھ کر ایک ایک لفظ پڑھتی ہوں تو نام ضرور ہوگا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس شخص نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا ہے اس کا ذکر نہ ہو لیکن آخری سطر ختم ہو گئی اور مجھے شدید دھچکا لگا کہ واقعی اس شخص کا نام نہیں تھا۔
یہ کیسا انصاف ہے کہ جن سیاستدانوں نے پچھتر سالوں سے اس ملک کو توڑا، کاٹا، خون چوسا اور کرپشن کا گھن لگایا، ان سب کا ذکر انکی تصاویر کیساتھ موجود ہے مگر جس شخصیت نے پاکستان کو دن رات محنت کر کے ایٹمی طاقت بنایا، نہ اسکا ذکر ،نہ اسکی تصویر ہے۔ تو صاف ظاہر ہے کہ ایسا نصاب ترتیب دینے کی وجہ اہل پاکستان کے دل سے محسنِ پاکستان کا تصور ختم کرنا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ اور بھی بہت سے اصل حقائق چھپانا ہے۔
ایسے میں اساتذہ اکرام کی ذمہ داری ہے کہ یہ ٹاپک پڑھاتے ہوئے بچوں کو گھر سے ڈاکٹر صاحب کی تصویر لا کر خود کاٹ کر ان سے ٹاپک کے سامنے پیسٹ کروائیں اور اس کے آخر میں ڈاکٹر صاحب کا ذکر انکے کارناموں کیساتھ کریں۔ میں بحیثیتِ استاد یہی کرونگی ۔ آپ میں سے کون کون یہ کرے گا۔ ؟
اللّٰہ کرے کوئی خوف خدا رکھنے والا مُؤَرِّخ آئے جو اس نصاب کو ایسے ترتیب دے کہ اس قوم کے مخلص راہنماؤں کا ذکر انکی تصاویر کیساتھ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کرے۔ مجرموں اور غداروں کا تصور بھی انکی تصاویر کیساتھ ان پر لعنت بھیجتے ہوئے کرے۔