آہ ! یہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں، کس ملک میں سانس لے رہے ہیں جہاں محافظ ہی راہزن بن جاتے ہیں اور منصف ہی انصاف کو پاؤں تلے روندتے ہیں۔ تیرہ سالہ بچی رضوانہ پر جس طرح ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے ہیں وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ آخر کیا قصور تھا اس بچی کا؟ اس نے چوری کی تھی؟ قیمتی گلدان توڑ دیا تھا؟ یا حکم نہیں مانتی تھی؟ جو بھی بات تھی اس کے والدین کو بلا کر بات کرنی چاہیے تھی۔ اول تو اتنی چھوٹی بچی کو گھریلو ملازمہ کے طور پر رکھنا ہی نہیں چاہیئے وہ بھی صرف 10 ہزار روپے کے عوض۔ دوم یہ کہ اگر بالفرض آپ نے ترس کھا کر اس کو اپنے گھر ملازمہ رکھ بھی لیا تو اس سے کم از کم انسانوں والا سلوک کرکے خود کو انسان تو ثابت کرتے۔
اس سے پہلے بھی گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کئی واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں جن میں ایک وکیل کی بیوی کا کیس بھی شامل ہے ( جس نے اپنی ملازمہ پر تشدد کیا تھا ) لیکن بجائے اسے سزا ہونے کے ہوا کیا؟ ” مک مکا “جی ہاں! جس کو صلح کا نام دیا گیا اور کچھ پیسے کے عوض بچی کے والدین نے راضی نامہ کر لیا اگر اسی وقت قانون حرکت میں آتا اور سخت سزا دی جاتی تواس طرح کا واقعہ دوبارہ رونما نہیں ہو تا۔
ہم تو اس نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں جو جانوروں کے لیے بھی سراپا رحمت تھے کیا ہمارے نام نہاد پڑھے لکھے طبقے نے اس واقعے کو نہیں پڑھا جس میں رحمت دو عالم سے ایک اونٹ نے شکایت کی کہ اس کا مالک اس سے کام زیادہ لیتا ہے اور کھانے کو کم دیتا ہے آرام کے مواقع بھی کم فراہم کرتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے مالک کی کیسی سرزنش کی تھی، اس کے علاوہ نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ کتنی محبت اور شفقت سے پیش آیا کرتے تھے خصوصاً بچیوں کے ساتھ ان کا حسن سلوک ہمارے لئے مشعل راہ ہونا چاہیے۔ کیا وہ احادیث لوگوں کی نظروں سے نہیں گزریں جس میں اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دوسروں کو تکلیف دینے اور ایذا پہنچانے سے منع کیا ہے۔
حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے: زمین والوں پر تم رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا،
ایک اور جگہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
افسوس صد افسوس آج کل کے پڑھے لکھے جاہلوں کو نہ تو انسانیت کا کوئی پاس ہے اور نہ ہی مذہب کا۔ میں ان والدین سے بھی پوچھنا چاہوں گی کہ آخر ایسی بھی کیا مجبوری ہوتی ہے کہ آپ اپنی چھوٹی بچیوں کو کام کرنے کے لئے غیروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو ماہ وسال چھوٹی بچیوں کے کھیلنے کودنےاور بہن بھائیوں سے روٹھنے بنانے میں گزرنے چاہیں وہ آپ پیسے کے عوض گروی رکھ دیتے ہیں آخر کیوں؟ آپ خود محنت کریں اور بچوں کے منہ میں حلال لقمہ ڈالنے کی کوشش کریں تو اللہ ضرور آپ کی مدد کرے گا۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی مشاہدہے میں آے ہیں جو خود تو کوئی کام کاج نہیں کرتے البتہ روز صبح استری شدہ کپڑے پہن کر، بالوں اور مونچھوں کو خضاب سے رنگے ہوئے، ایک ہاتھ میں سگریٹ پکڑے ہوئے، اپنی بچیوں کو (جن کی عمریں 10سے 12سال ہوں گی) لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کے لئے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ ان بچیوں کے افسردہ چہروں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ کام کرنا نہیں چاہتیں ان کی آنکھیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہوتی ہیں کہ ہم سے ہمارا بچپن نہ چھینو مگر وہ باپ کے پیچھے جلدی جلدی بھاگتے ہوئے جا رہی ہوتی ہیں کہ کہیں کام پر دیر نہ ہو جائے اور باجیوں کی ڈانٹ نہ سننی پڑے۔
دوسری طرف رہے وہ لوگ جو غربت کے مارے ہوئے ہیں اور اپنی بچیوں کے اچھے مستقبل کی خاطر انہیں امیر اور پڑھے لکھے لوگوں کے پاس چھوڑ جاتے ہیں ان کو بھی ہر ہفتے اپنی بچیوں سے ملنے ضرور جانا چاہیے تاکہ وہ وہاں دیکھ سکیں کہ ان کی اولاد وہاں کیسی زندگی گزار رہی ہے۔
یاد رکھیں! بچے رب کی طرف سے تحفہ ہیں، نعمت خداوندی ہیں، اللہ تعالیٰ جب روز قیامت ان کے بارے میں پوچھے گا تو کیا جواب دیں گے؟۔
حکومت وقت سے گزارش ہے کہ رضوانہ کے کیس میں مجرم کو سخت سے سخت سزا دے کر عبرت کا نشان بنائے تاکہ آیندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔ قوانین تو ہمارے ہاں موجود ہیں مگر اصل بات ہے عمل درآمد کی۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے