آج بروز پیر 31 جولائی 2023 میٹرک کا رزلٹ آیا۔ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ادارہ ہٰذا کے طلبہ و طالبات ماشاءاللہ سو فیصد کامیاب ہوئے۔ دل خوشی سے باغ باغ ہوا۔ چونکہ بندی ناچیز ادارہ ہذا کی ادنیٰ سی استاد ہے۔ تو طلبا کے ساتھ ساتھ ہم بھی خوشی سے جھومتے رہے۔ پھر لمحے بھر کو ایک اندرونی کیفیت سے ہمارے ہنستے مسکراتے چہرے سے وہ نقاب اتار کر پھینک ڈالا کہ جاگو، ہوش میں آؤ کہ تم وہی ہو کہ جسے تعطیلات گرما کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ کی تنخواہ نہیں ملی۔ کیونکہ تم ایک نجی اسکول کے استاد ہو۔ تمہارا کام دیہاڑی لگانا ہے۔ گرمی اور سردی میں تمہیں سیزنل بزنس تلاش کرنا ہوگا کیونکہ اسکول بند ہونے سے تمہارے گھر کا چولہا تو بند ہوچکا تو اب تم ریڑھی لگاؤ یا پھر اخبار بیچو۔ یہ تین ماہ تم آزاد ہو۔ ہاں ہاں بالکل آزاد ہو۔ لیکن خدارا تم بھیک مانگ لینا لیکن خودکشی مت کرنا۔ کیونکہ تکلیف ہوتی ہے جب گزشتہ ایک واقعے میں بچہ باپ کی لاش کے پاس کھڑا رو رہا تھا کہ ابا اٹھو میں روٹی نہیں مانگوں گا۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔ جو اس لیے حاصل کیا گیا کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاری جائے گی۔ ہرشخص کو زندہ رہنے کا مکمل اختیار ہوگا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اربابِ اختیار نے غریب کا ہمیشہ استحصال کیا ہے۔ ہر بڑی مچھلی نے چھوٹی مچھلی کو ہی کھایا ہے۔ نجی اسکول کے مالکان بھی اسی ڈگر پہ چلتے ہوئے بچوں سے فیس وصول کر لینے کے دعویدار ضرور ہیں مگر آہ کہ اساتذہ کو ان کا حق دینے سے گریزاں ہیں۔ میرے الفاظ کی تلخی سے بہت دل مشتعل اور بہت سے مطمئن ہوں گے مگر میں بہ چشم تر یہ کہنا اپنا فرض سمجھتی ہوں کہ ایک ادارہ جب اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے سکتا تو براہِ کرم خودکار مشینیں تلاش کیجیے۔ اب تو مشکل بھی نہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجینس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب روبوٹک نیوز کاسٹر نیوز پڑھ رہی ہیں تو میں نجی اداروں کے سربراہوں کو یہ مشورہ دینا چاہوں گی کہ ہم اساتذہ کے جذبات کا خیال نہیں رکھ سکتے تو براہِ کرم ٹیکنالوجی سے مستفید ہوں۔ ایک استاد صرف کتاب نہیں پڑھ کہ بچے تک پہنچاتا۔ وہ اپنی روح ، اپنی تربیت کو اگلی نسل میں ٹرانسفر کر رہا ہوتا ہے۔ وہ بارش نہیں دیکھتا، وہ دھوپ نہیں دیکھتا۔ وہ اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے مگر افسوس اربابِ اختیار کی سماعتیں میری آواز سے بہت دور ہیں۔ مگر میں کہوں گی کہ میں کہے بغیر رہ نہیں سکتی۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں زہرِ ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
نجی ادارے اپنی روش پہ قائم ہیں کیونکہ حکومت ان پہ چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھتی۔ حکومت نے ایک دیہاڑی دار مزدور کی کم سے کم اجرت جب طے کی تو کہاں گئے یہ اساتذہ؟ کیا 5 سے 6 ہزار ایک مزدور کی مہینے کی اجرت مقرر کی گئی ہے۔ حاکمِ وقت جاگ کہ عمر کی حاکمیت کو یاد کر۔ یاد کر کے عمر دریائے فرات کے کنارے زخمی بکری کے لیے بھی جوابدہ ٹھہرے۔ اگر نجی اسکولوں کے سربراہان اپنی اسی روش پہ چلتے تو نجی اسکول صرف کاروبار رہ جائیں گے۔ جو بچوں کے تربیت کو بہترنہیں بنا سکتے۔
حکومت اور نجی اسکول مالکان سے التجا ہے کہ خدارا احساس کیجیے۔ ان لوگوں کا جو آپ سے مرتبے میں کم ہو سکتے ہیں۔ لیکن احساس اور قدر میں نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو بچوں کی تربیت کے ادارے کم اور کاروباری ادارے ذیادہ ہو جائیں۔ کیونکہ ایک استاد، جیتا جاگتا انسان ہے۔اسے زندہ رہنے کے لیے روٹی، کپڑا، مکان تو کم از کم مہیا کریں۔ اس کو اتنی کم اجرت پہ مہینہ گزارنے پہ مجبور نہ کریں کہ ضروریات پوری کرتے کرتے وہ قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے۔ اس پہ ظلم یہ کہ تین ماہ کی تنخواہ حذف کرلی۔ کہاں ہیں منصف، کہاں گئے وہ لوگ جو غریب کے استحصال کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ خدارا جاگیے، سامنے آئیے، اساتذہ کو ان کا حق دلوائیے۔ حکومت سے پرزور اپیل کے نجی اسکول کے اساتذہ کو تین ماہ کی تنخواہ کے ساتھ ساتھ کم از کم ماہانہ اجرت طے کی جائے تا کہ ان کا استحصال نہ ہو۔