برادر دوست ملک چین کے نائب وزیراعظم ہی لیفینگ ان دنوں پاکستان کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ چین کے نائب وزیراعظم سی پیک کی 10 ویں سالگرہ کی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے آئے ہیں۔ سی پیک منصوبے کی بنیاد 2013 ء میں رکھی گئی اور نومبر2016 ء میں اس بڑے پروجیکٹ کے ایک حصے نے کام شروع کر دیا تھا۔ جبکہ پاک چین دوستی کی ابتداء 21 مئی 1951 ء سے ہوئی ، اور پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔ پاک چین دوستی کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ ہمالیہ سے بلند ، سمندر سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے ۔ دونوں بہت قریبی اور ہمسا یہ مما لک کے ما بین تعلقات سفا رتی تا ریخ میں اپنی مثال آ پ بن چکے ہیں، جو ہمیشہ ہر اچھے اور بر ے وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ مضبو طی سے کھڑے رہے ہیں اور علاقائی ، بین الاقوامی ہر فورم پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔
سفا رتی تعلقات کے سفر میں دونوں اقوام نے ایک دوسرے کی سوچ کے ساتھ مکمل اتفاق کررکھا ہے جس سے تعلقات گہرے ہو ئے ہیں اور دونوں ممالک کی عوام میں ہم آہنگی بڑھی ہے اور تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔پاک چین تعلقات اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد پر استوار ہیں، دفاع ، معیشت ، تعلیم ، طبی ، معاشرتی ، کاروبار ، سائنس ، آرٹس اور دیگر مختلف شعبوں میں قریبی تعاون نئی بلند یوں کو چھو رہا ہے ۔ برادر دوست ملک چین کے تعاون سے جاری پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور منصوبے کی تکمیل سے پاکستان نہ صرف اقتصادی طور پر مضبوط اور خوشحال ہوگا بلکہ یہ کوریڈور پاکستان کی مضبوط دفاعی لائن بھی ہو گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری صرف پاکستا ن کے لئے ہی نہیںبلکہ بہت سے ممالک کیلئے خوشحالی کا پیش خیمہ ہے۔عالمی ماہرین اقتصادیا ت کے اندازے کے مطابق اس منصوبے سے چین ، جنوبی ایشیا ء اور وسط ایشیا ء کے تقریباً تین ارب افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ جبکہ پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کی بدولت مخصوص تجارتی رہداریوں کی تعمیر سے بر اعظم ایشیا ء کی تقریباً نصف آباد ی اس منصوبے کے مثبت اثرات سے فیض یاب ہوگی۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو اکنامک کوریڈور کا معاہدہ پاکستان اور چین کے اقتصادی تعاون کی تاریخ کا سب سے زیادہ اہم معاہدہ ہے، اس منصوبے کے آغاز کے بعداب پاکستان کی معاشی خوشحالی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری ایک ایسا ترقیاتی پروگرام ہے جس کے تحت جنوبی پاکستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ کو ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے ذریعے چین کے جنو ب مغربی علاقے شن جیانگ سے مربوط کیا جا رہاہے۔چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں اس منصوبے کی تکمیل میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہیں اس لئے اس منصوبہ پر تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔اس منصوبے کی تکمیل کے بعد چین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے مابین ہونے والی تجارت پاکستان کے راستے سے ہونے لگے گی اور اکنامک کوریڈور ان ممالک کی تجارت کیلئے مرکزی دروازے کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ بالخصوص مڈل ایسٹ سے برآمد ہونے والا تیل گوادر کی بندر گاہ پر اترنے لگے گا کیونکہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس کے دھانے پر واقع ہے۔ جبکہ اس تیل کی ترسیل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے راستے سے چین کو ممکن ہوسکے گی۔ اس طرح پاکستان کو وسائل روزگار کے حصول کے علاوہ عالمی راہداری کے طور پر خطیر زرمبادلہ کا مستقل موقع بھی میسر آئے گا۔عالمی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سی پیک اکنامک کوریڈور منصوبے سے ایشیاء میں علاقائی تجارت و سرمایہ کاری کے بند دروازے کھلیں گے اور اطراف میں واقع تمام ممالک کو معاشی ثمرات حاصل ہونگے اور یوں دنیا کی سب سے بڑی منڈی وجود میںآئے گی جو علاقائی استحکام اور خوشحالی کی بنیاد ثابت ہوگی۔
پاکستان اپنی سرحدوں کو کاشغر کی مصنوعات کیلئے مختصر ترین رسائی اور عبوری راہداری کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، اس ضمن میں کراچی پورٹ قاسم کی بندرگاہ کے علاوہ گوادر پورٹ ایک اضافی دروازہ ہوگی۔یہ امر مذید خوش آئند ہے کہ چین ، اپنے مغربی علاقے میں ’’کاشغر سپیشل اکنامک زون ‘‘ تشکیل دے رہا ہے جو چین کو مغربی جانب سے وسطی ایشیاء کے ساتھ اور جنوب میں جنوبی ایشیاء کے ساتھ بھی جوڑ دے گا۔ چین نے گوادر میں متعدد میگا پراجیکٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جو دونوں ممالک کیلئے انتہا ئی فائدہ مندثابت ہونگے۔ چین ، گوادر کو پاکستان، ایران، وسطی ایشیا کی ریاستوں اور خود چین کیلئے ایک مرکزی بندرگاہ بنانے کا خواہا ں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے گوادر کی جلد آباد کاری کیلئے مختلف پراجیکٹس کا منصوبہ بنا رکھا ہے ، ان پراجیکٹس میں کوئلے،سورج اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے متعدد منصوبے بھی شامل ہیں۔ چین ، گوادر میں شنگھائی فری ٹریڈ زون کے ماڈل کو دہرانا چاہتا ہے، چین نے اپنی اقتصادی اور سماجی اصلاحات کو آزمانے کیلئے ابتدا میں چین کے اندر بھی سب سے پہلے شنگھائی فری ٹریڈ زون کا تجربہ کیا جو کہ چین کی اقتصادی ترقی کیلئے بے حد کامیاب ثابت ہوا۔ شنگھائی فری ٹریڈ زون میں مختلف صنعتی و تجارتی شعبوں کیلئے متعدد رعائتیں اور سہولتیں فراہم کی گئی تھیں، بیرونی سرمایہ کاروں کووہاں تین ماہ کے اندر پندرہ فیصدی سرمایہ لگانے کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ۔ توقع ہے کہ سپیشل اکنامک زون، فری ٹریڈ زون اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کی تشکیل کے بعد گوادر میں پاکستان کی ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کیلئے لاتعداد وسائل روزگار پیدا ہونگے جس سے یہاں عوام کے طرز زندگی میں نمایاں بہتری آئے گی۔ بلاشبہ چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی بہترین انداز میں نبھائی ہے۔ پاکستان کی ٹیکنالوجی، ہتھیار اور سرمایہ کاری کی فراہمی اور مختلف بحرانوں سے نکلنے میںخلوص نیت سے مدد کی ہے۔ اسی لئے پاک چین دوستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوئی موسم یا وقت اسے کم نہیں کر سکا ، بلکہ یہ دوستی سمندر سے گہری ہمالیہ سے اونچی شہد سے زیادہ میٹھی اور اب سی پیک منصوبے کے بعد اسٹیل سے زیادہ پائیدار اور مضبوط ہے۔