قرب قیامت ہے سو حادثات ٹوٹی تسبیح کے دانوں کی مانند غضب ڈھاتے چلے جارہے ہیں۔
ہر نئے حادثے کو کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں سے ہم دیکھتے اور سنتے تو ہیں لیکن بدن کسی فالج زدہ مریض کی طرح حرکت سے عاری ہیں۔
ہر نیا حادثہ بجلی کے جھٹکے کی طرح اس مفلوج بدن کو زندگی کی طرف لانے کی ناکام کوشش کرتا ہے لیکن نتیجہ لاحاصل ہی رہتا ہے۔
جھٹکوں کی کثرت سےآہستہ آہستہ ان مفلوج جسموں میں اب تو دل بھی قریب المرگ ہو کر زندگی کے آثار کھوتے جارہے ہیں۔
حالیہ بہاولپور یونیورسٹی کا اسکینڈل؛ محافظوں کی شکل میں لٹیروں کی داستاں، کیا یہ حقیقتاً کسی اسلامی ریاست کا واقعہ لگتا ہے؟
کیا روح شرم سے کانپ سی نہیں جاتی؟
کیا دل سینے میں پھٹ سے نہیں جاتے؟
کیا بیٹیوں کے والدین کے نوحے سنائی نہیں دیتے؟
کیا پندرہ سو برس قبل بیٹیوں کو زندہ دفن کیا جانا سمجھ نہیں آتا؟
کیا چند برس قبل بیٹیوں پر آٹھویں کے بعد تعلیم کے دروازے بند کر دینا درست دکھائی نہیں دیتا؟
سچ پوچھیے تو ایسے ہولناک واقعے نے بیٹیوں کے ماں باپ کو بہت کچھ سوچنے پر اکسایا ہے لیکن کیا ریاست کے والیوں پر بھی کچھ اثر ہوا ہے؟
کیا ارباب اختیار اور ملکی اشرافیہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قبلہ درست کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کرے گی؟
ایسے سانحات اچانک نہیں ہو جاتے۔ یقیناً ان کے پیچھے لمبی سازشوں کے جال بچھائے جاتے ہیں۔
یہ تو ایک ظالم تھا جو بے نقاب ہو گیا، نجانے اور کتنے فتنے تعلیم کے نام پر پروان چڑھائے جارہے ہیں۔
فیسٹیولز اور فیشن شوز کے نام پر شرفاء کی بیٹیوں کے مجرے، تو کبھی کو ایجو کیشن کے نام پر آگ اور بارود کو اکٹھا کرنا۔ بے حیائی اور بے پردگی کو اعلیٰ تعلیم کا سمبل بنانا، اور کبھی نمبروں کی دوڑ لگوا کر اندر کھاتے میرٹ کا گلا گھونٹنا، اس جیسی نجانے اور کتنی وجوہات ہیں جنہیں تلاش اور اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
کاش کہ یہ واقعہ ان مفلوج جسموں کو زندگی بخش دے۔ کاش کہ یہ آخری حادثہ ہو جو یہ بدن کھلی آنکھوں سے دیکھ اور کھلے کانوں سے سن رہے ہیں۔ کاش زمیں پھٹ جاتی اور فلک نگاہیں پھیرلیتا۔
الٰہی اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی ارض پاک جس کی مٹی میں نجانے کتنی پاک بیٹیوں کا لہو شامل ہے، اسی ارض پاک پر رکھوالے ہی لٹیرے بن بیٹھے۔
گلہ کریں تو کس سے، نوحہ کریں تو کہاں؟ اپنی بیٹیوں کواعلیٰ تعلیم دلوانے کی خواہاں اس وطن کی تمام بے بس مائیں ارباب اختیار سے مطالبہ کرتی ہیں کہ؛؛ خدارا ہماری بیٹیوں کی عصمتوں کی حفاظت کی گارنٹی دی جائے۔ ان کے لیے ہر ہر سطح پر علیحدہ اور محفوظ تعلیم مہیا کی جائے۔
تعلیمی اداروں کو سو فیصد جنسی ہراسگی اور نشے سے پاک کیا جائے۔ اعجاز شاہ جیسے بھیڑیوں کو سر عام سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو بہروپ بدل کر لوٹنے کی نوبت نہ آئے۔