یہ بات تو طے ہے کہ سانحہ کربلا دراصل حق و باطل ہی کا معرکہ تھا۔ یہ اقتدار کی نہیں اقدار کی جنگ تھی، it wasn’t the personality but an idealogical clash.
گویا حسین اور یزید دو افراد کے نہیں، دو کرداروں کے نام ہیں، دو نظریات کے نمائندگان ہیں۔ یزید رہتی دنیا تک کے لیے بدطینت فطرت، ظلم و زیادتی اور ذلت و رسوائی کی علامت ہے، جبکہ حسین ابن علی قیامت تک کے لئے حق پرستی، استقامت و جوانمردی اور امن و سلامتی کا استعارہ ہیں۔
کربلا بذات خود نام ہے۔ کرب اور بلا کا، آزمائش کی سختی کا، ظلم و جبر کی بھڑکتی آگ کا۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ہر دور میں، حسین کے نانا کی امت میں سے، حسین کے کسی نہ کسی جانشین کو، اپنے دور کے کسی نہ کسی “کربلا” اور “یزید” کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ شہادتِ حق کے راستے میں آزمائش شرط ہے اور یہ سنت اللہ ہے۔ جیسا کہ خود اللہ نے فرمایا کہ “کیا ان لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟” (یعنی آزمائش میں ڈال کے) مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزیدی اور حسینی ہر دو کرداروں کے درمیان، ہم کہاں کھڑے ہیں؟ حسین کے ساتھ؟ یا یزید کے؟ ہمارا کردار کیا ہے؟ حسینی یا یزیدی۔؟
یعنی ہم، ہماری سوچیں اور فکریں، ہمارے دل و جان، ہمارا وقت اور توجہ، ہماری قوتیں اور صلاحیتیں، ہماری محنت ومشقت، ہماری دوڑ دھوپ، ہمارے ذرائع و وسائل سب کے سب آخر کس پلڑے۔ کس کھاتے میں شمار ہوں گے؟ حسین کے؟ یا یزید کے؟ سچ تو یہ ہے کہ ان سوالات کے جوابات ہی میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور دین اسلام سے ہماری وابستگی اور ہمارے دعویٰء ایمان و محبت کی پرکھ ہے۔ یہی ہماری اصلیت کا آئینہ ہے۔
یاد رہے کہ بےشک خاموش تماشائی کی صورت، وقت کے یزید کو ظلم کرتے اور پنپتے دیکھنا، مگر اس کا ہاتھ نہ پکڑنا، ماتھے پر شکن تک نہ آنا، دل میں ملال تک نہ ہونا۔ یہ بھی سراسر ظلم ہے۔ یزید کی سپورٹ ہے، یزید کے ظلم میں اور اس کی سزا میں برابر کی شراکت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسی نکتے کی وضاحت امام عالی مقام نے کربلا کے موقع پر اپنے خطاب میں کہی تھی کہ “جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دینے والے، اللہ کے عہد کو توڑنے والے، رسول اللہّﷺ کی سنت کی خلاف ورزی کرنے والے، گناہ اور زیادتی کے ساتھ اللہ کے بندوں پر حکومت کرنے والے کو پائے اور پھر نہ اپنی زبان اور نہ ہی اپنے عمل کی طاقت سے اس کو روکے، تو اللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ وہ اسے بھی وہیں بھیج دے، جہاں وہ اس ظالم حکمران کو بھیجے گا”۔
مزید برآں تحفۃ العقول میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد بیان ہوا ہے کہ “اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنے واجب کی حیثیت سے پہلے ذکر کیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر یہ دونوں فریضے قائم ہو گئے، تو سب فرائض خواہ نرم ہوں یا سخت، خودبخود ادا ہوتے چلے جائیں گے”۔ مزید فرمایا کہ “یہ دونوں فریضے انسانوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے والے، صاحبانِ حقوق کے حقوق ان کی طرف لوٹانے والے اور ظالموں کے ظلم کی خلاف صف آراء کرنے والے ہیں” ۔
مگر اس سارے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے، اگر ہم غیر جانبداری کے ساتھ، بحیثیت مجموعی امت مسلمہ کا جائزہ لیں، تو اس نتیجے پر پہنچنا چنداں مشکل نہیں کہ خود ہمارے دین و دنیا کی بقاء و سلامتی صرف اور صرف اسلام کی بقاء و سلامتی میں مضمر ہے۔ جبکہ اسلام کی بقاء و سلامتی صرف اور صرف اسوہ حسینی میں ہے اور دوسری طرف خود اسوہ حسینی کی بقاء و سلامتی صرف اس اس طرزِ عمل کے ساتھ وابستہ ہےکہ اسوہء حسین کو رسمی آنداز میں، محض ذکر و فکر تک ہی محدود نہ رکھا جائے، بلکہ عالی مقام کی زندہ و جاوید زندگی اور زندہ و جاوید شہادت دونوں کو بطورِ نمونہ اور چیلنج سامنے رکھتے ہوئے، ہر وہ تدبیر اور کوشش آزمائی جائے کہ آج ہر مردِ مسلمان حسین اور ہر خاتون اسلام زینب بن جائے۔ ہر یزیدی فکر، رسم اور چلن کے خلاف، نظام باطل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کےلئے،
اسلام کے پامال کردہ اعلی و ارفع اصولوں کی ازسرنو بحالی اور نفاذ کے لیے، اللہ کی دھرتی پر، اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کے لیے، اور اس رستے میں حائل ہر یزیدی قوت سے مقابلے کے لئے۔ مگر پھر وہی بات کہ یہ صرف جذباتی تقریروں، نعروں، دعوؤں سے نہیں ہو گا۔
کیسے ہو گا؟
بڑے غور و خوض، بڑی حکمت، تدبیر کے ساتھ۔ وقت حاضر کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے فکر و عمل کی پوری پلاننگ کے ساتھ۔، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنی قوتوں، صلاحیتوں کو ضائع کرنے کی بجائے اسلامی اجتماعیت کے ساتھ جڑ کر۔ اور دل و دماغ میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے نقش بٹھا کر۔ بےشک یہی حسینی مشن ہےاور حبِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل تقاضا بھی۔