تعلیمی اداروں میں سب سے پہلے ہمارے بچوں کو یہ بات سمجھا کر حوصلہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے اساتذہ کرام بھی آپ کے روحانی باپ ہیں۔ یہاں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ادارہ آپ کا گھر ہے، یہ جملے واقعتاً حقیقت پر مبنی ہیں، کیونکہ اساتذہ روحانی والدین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماں باپ اس دنیا میں لاتے ہیں اور استاد علم و ہنر سکھا کر انسان کو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے لیکن روحانی والدین وہ اساتذہ ہوتے ہیں، جو اپنے عہدہ سے فرض شناس ہوتے ہیں اور یہی اساتذہ کسی قوم کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بہ احسن عہدہ برا ہو سکیں۔ لیکن اس روحانی باپ پر جب نفس پرستی اور زر پرستی کی حوس ڈھیرے ڈال لیتی ہے تو یہ پھر اتنا سفاک ہو جاتا ہے کہ اصلاح کرنا مشکل ہو جاتی ہے پھر اس کا حل یہی ہوتا ہے کہ اس کو اس عہدہ سے اتار دیا جائے، وگرنہ بہت سے گھروں کو اجاڑنے کا ذریعہ اور سبب بن جائے گا، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایسی بے ہودہ حرکتوں سے باز کیوں نہیں آتے اور وطن عزیز پر دھبا کیوں لگا رہے ہیں.؟ یہ وہ سوال ہے جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے کچھ ہوس پرست عملے کی حقیقت کھل جانے کے بعد ہر انسان کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔
مین اسٹریم میڈیا رپورٹس کے مطابق واقعہ یہ پیش آیا کہ بہاولپور میں ناکے پر کھڑی پولیس نے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ گاڑی تیزی سے دوسری طرف مڑ گئی ، پولیس کے جوانوں نے اس گاڑی کا پیچھا کیا اور روک لیا، اس گاڑی میں سے ایک شخص کو پولیس نے باہر آنے اور لائسنس دکھانے کا کہا ، دوران چیکنگ اس شخص کے وائلٹ سے 8 گرام آئس اور سیکس کی گولیاں برآمد ہوئیں تو پولیس کا شبہ بڑھا، اس کی جیب سے دو موبائل بھی برآمد ہوئے تھے جن کا پاسورڈ لے کر جائزہ لیا گیا تو اس میں لڑکیوں کی تقریبا ساڑھے پانچ ہزار فحش ویڈیوز، تصاویر اور چیٹ سامنے آگئیں، تفتیش میں وہ شخص بتاتا ہے کہ میرا نام میجر( ر)اعجاز شاہ ہے اور میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں چیف سیکیورٹی آفیسر تعینات ہوں، مزید تفتیش پر وہ شخص انکشاف کرتا ہے کہ موبائل میں موجود یہ سب مواد یونیورسٹی میں زیر تعلیم اور فارغ التحصیل کچھ طالبات کا ہے جو مختلف مقاصد کے لیے استعمال اور فروخت تک ہوتا ہے، وہ یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ آئس کا نشہ وہ خود بھی استعمال کرتا ہے اور ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں فروخت بھی کرتا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مبینہ طور پر تقریباً ساڑھے پانچ ہزار نازیبا ویڈیوز کا یہ اسکینڈل ہمارے عصری تعلیمی نظام پر بہت بڑا سوال ہے، اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کے تین ملازم گرفتار ہوئے ہیں، گرفتار ہونے والوں میں یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس ابوبکر ، چیف سیکیورٹی آفیسر سید اعجاز شاہ اور ٹرانسپورٹ آفیسر الطاف شامل ہیں ، وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیجی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سید اعجاز شاہ کے قبضے سے سینکڑوں طالبات کی نازیبا ویڈیوز اور 8 گرام آئس ملی ہے، DPO بہاولپور کا کہنا ہے کہ جامعہ اسلامیہ میں منشیات فروشی کے ریکارڈ یافتہ 113 طلبہ کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوا ہے، ہمارا ٹارگٹ منشیات فروش اور منشیات استعمال کرنے والے نشئی ہیں، یونیورسٹی ہمارا ہدف نہیں ہے، مستقبل میں ایسی چیزوں کے ادراک کے لیے ان کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں، DPO بہاولپور کا مزید کہنا ہے کہ ادارے میں طلبہ کا تحفط یقینی ہو اس کے لئے ہر سطح پر اسکریننگ ہوگی، موبائل فونز کی فرانزک رپورٹ آنے پر سب سامنے آجائے گا، پولیس نے خود سے موبائل میں موجود جنسی ہراسانی کسی کیس کو تاحال نہیں چھیڑا ہے، لیکن اگر ہراسانی کی کوئی شکایت لے کر آئے گا تو ضرور کارروائی کریں گے، فقط سوشل میڈیا نہیں میڈیا اسٹریم میڈیا کی ان رپورٹس کے بعد اس گھناؤنے اسکینڈل کو یونیورسٹی انتظامیہ نے سازش قرار دے دیا ہے، ایسے واقعات کے بعد یہی ہوتا ہے کہ گھناؤنے جرم میں ملوث لوگ اپنے جرم کو سازش قرار دے کر اس واقعے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ تجربہ پہلے بھی رہا ہے آئندہ بھی یہی حربہ سفاک لوگ استعمال کریں گے، اس مقدمے میں بھی پولیس پر یقیناً دباؤ آ رہا ہوگا، ممکن ہے پولیس تفتیش بدل بھی دے لیکن اول کوشش پولیس نے بہت اچھی کی ہیں، DPO صاحب نے بہت اچھی بات کہی کہ یونیورسٹی انتظامیہ اس واقعے کو بیشک سازش کہے لیکن جنہیں ہم نے گرفتار کیا ہے پورے ثبوتوں کے ساتھ گرفتار کیا ہے، گرفتار ہونے والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ سازش ہے، میرے لئے یہاں ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ 5500 نازیبا ویڈیوز تو اعجاز شاہ نامی شخص کے صرف دو موبائل سے ملی ہیں ، مزید کتنے موبائل اور کتنی فحش ویڈیوز ان ظالموں نے نوجوان طالبات کی بنائی ہوں گی، یہ سوچ کر دہشت ہورہی ہے ، یقیناً اس واقعہ کو دبایا جائے گا اور دبانا چاہیے کہ ہزاروں خاندانوں کی عزتیں داؤ پر لگ جائیں گی، لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے ، اس پر بھی سوچنا چاہیے۔
مدارس دینیہ میں اور یونیورسٹی اور کالجز میں پڑھنے والی سب ہماری ہی بہنیں اور بچیاں ہیں، ان کی عزتوں پر ہوس پرست درندے حملہ آور ہیں، ایسے درندگی کے واقعات کو مستقبل میں روکنے کے لئے حکومت کو سوچنا ہوگا کیونکہ ہزاروں بچیوں سے لاکھوں افراد کی عزت وابستہ ہیں، ان عزت دار خاندانوں کی عزت کا بھی خیال رکھنا ہے، لیکن کوئی ایسا نظام بھی لانے کی کوشش کی جائے کہ بچیوں کی عزتوں پر حملہ کرنے والے درندے سزاؤں سے نہ بچ سکیں کیونکہ یہ مسئلہ فقط ایک یونیورسٹی کا نہیں ہے، ہر یونیورسٹی میں ایسے ملتے جلتے مسائل ہیں، آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں یہ بھی ایک دلیل دی جارہی ہے کہ اکثر یہ کام رضامندی سے ہوتے ہیں، یہ تو چوری اور سینہ زوری کے مترادف ہے،لیکچرار استاد ہیں اور استاد کو معاشرے میں باپ کا درجہ حاصل ہے، ایک باپ اپنی بیٹی کے ساتھ زنا کرے تو دونوں برابر کے مجرم کیسے ہوں گے، اسی طرح اسٹاف کے دیگر لوگ ہیں، جن کے پاس ادارے کے وسائل ہیں، اختیارات ہیں، جب یہ بااختیار لوگ طلبہ یا طالبات کو غلط کاموں کی طرف راغب کریں گے تو طلبہ و طالبات کیسے اپنے آپ کو بچا پائیں گے، اس لئے رضامندی کہہ کر بات کو دبانا مناسب نہیں ہے، ان غیر اخلاقی حرکات کے ساتھ ایک غلیظ ترین کام منشیات کے حوالے سے چل رہا ہے، الحمدللہ منشیات کی لعنت سے چھوٹے بڑے تمام دینی مدارس محفوظ ہیں، لیکن بدقسمتی سے کالجز و یونیورسٹیز میں کرسٹل ، آئس اور نجانے کون کون سی منشیات استعمال ہورہی ہیں، منشیات تو ملک کے کسی بھی حصے میں بیچنا جرم ہے، تعلیمی اداروں میں یہ لعنت کیسے بک رہی ہے، حکومت کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے اور تحقیق کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے؛ کیونکہ انہی کالجز و یونیورسٹیز سے پڑھنے والوں نے کل ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اگر منشیات اور غیر اخلاقی کام یوں جرات سے تعلیمی اداروں میں جاری رہے تو ہمارے بچوں کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا، اور ایسے ادارے ہمیں بانیان پاکستان کے ویژن سے بہت دور لے جائیں گے، اگر اس پر دنیاوی طبقہ فکر مند نہیں ہو رہا تو دینی طبقے کو اس پر متوجہ ہونا چاہیے، اس پر آواز اٹھائی چاہیے کیونکہ مدارس و یونیورسٹیز سب ہمارے ہیں، اور ان میں پڑھنے والے بچے اور بچیاں ہم سب کو پیارے ہیں۔