شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ اُمت مسلمہ کے لئے زندگی کے بہت سے اسباق سکھاتی ہے چند نفوس پر مشتمل یہ قافلہ جو ایمان کی دولت سے لبریز تھا شر کو مٹانے کے لیے چل پڑا، کیوں کہ ایمان کی ایک بڑی نشانی شر اور برائی کو روکنا مومن کی ذمہ داری ہے.
جیسا کہ اللہ رب العزت کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ؛ جو کوئی دیکھے تم میں سے برائی؛ تواسے چاہیے کہ ہاتھ سے اسے مٹا دے پھر اگر(ہاتھ سے مٹانے کی) طاقت نہیں رکھتاتو اسے زبان سے مٹائے ؛ پھر اگر زبان سے مٹانے کی طاقت نہیں رکھتا؛ وہ اسے دل سے مٹائے (یعنی برا جانے اور نفرت کرے) اور یہ درجہ ایمان کا سست ترین ہے) صحیح مسلم.
ویسے تو ہاتھ سے مٹانے کا کام حکومت وقت کا ہےلیکن اسکے ساتھ اس پاس کی برائی بدی اور بے حیائی اور غیر شرعی اعمال کو روکنا علماء کرام اور مشائخ حقانی کی بھی ذمہ داری ہے ویسے تو اسلامی ریاست میں حکمران بننے کا حق اسی کو حاصل ہے جو اللہ رب العزت کی رسی کو تھام کر رکھے لیکن اگر حکمران اور اعلیٰ قیادت کو بھی برائی میں ملوث دیکھے تومومن کا یہ فریضہ اولین ہے کہ وہ اپنی جان ومال کی فکر کئے بغیر اس برائی کو مٹانے کی کو کوشش کرے.
ہم سب جانتے ہیں کہ یزید کا عمل و کردار اسلام کے منافی تھا جسکے اثرات دور رس ممکن تھے پھر کیسے نواسہ رسول اس دین کی ترویج اور بھلائی سے اپنی ذات کو دور رکھتے جس کے لیے ان کے نانا حضرت محمد مصطفيٰ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زندگی کا ہر پل گزارا اور تکلیفیں برداشت کیں اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آخرت میں اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کو کیا منہ دکھاتے لہٰذا وہ اس برائی کو مٹانے کے لئے ڈٹ گئے آپ کے آس معرکہ کربلا سے صحیح اور غلط کی آگہی سب پر عیاں ہو گئی کہ آپ حق بجانب تھے آپکی شہادت اُمت مسلمہ کے لئے سبق ہے کہ برائی کو صرف برائی ہی نہیں سمجھنا چاہئے اس کو مٹانے کے لیے جدوجہد کرنا بھی لازمی شرط ہے.
آج ہمارے سامنے طاغوتی طاقتوں کے پھیلائے ہوے بہت سے خوبصورت جال ہیں جسے ہم برا بھی سمجھ رہیں ہیں لیکن خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں حکومتوں کے غلط اور اسلام مخالف طرز عمل پر بھی لب کشاں نہیں، اپنے اس پاس نظر دوڑائیں کیا کچھ اسلامی تعلیمات کے خلاف رائج نہیں، سود، تعلیمی اداروں میں موسیقی کی تعلیم، بے حیائی، کرپشن، کھلے عام شراب کی خریدو فروخت، نا انصافی جھوٹ، ذخیرہ اندوزی، وغیرہ وہ سب برائیاں حکومت وقت کی سر پرستی میں ہو رہیں ہیں. صرف امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے صفحات کو پڑھنا، رونا اور افسوس کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انکے طرز عمل کے مطابق جدوجہد کرکے ان برائیوں کو مٹانا. ایمان کا تقاضہ ہے جس سے آدھی سے زیادہ قوم غافل ہے. یقیناً اس غفلت سے بیدار ہونا امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنا ہے جو وقت کا تقاضہ ہے