موبائل کیمرہ، مووی کیمرہ اور مائیک ہاتھ میں تھامے سڑکوں پر کہانیاں تلاش کرتی ہوئی یہ مخلوق دیکھنے میں انسان لگتی ہے لیکن در اصل یہ ننگی گردنوں، بڑے بڑے پروں، نوکیلے پنجوں، لمبی تیز دھار چونچوں اور گھورتی بلکہ تاڑتی ہوئی گول سیاہ مگر چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے گدھ ہیں۔ جس طرح گدھ کو ایک مردار کی تلاش ہوتی ہے وہ ٹنڈ مند درختوں کے تنوں پر بیٹھا کسی جان کے ٹوٹنے اور بے جان جسم کے زمین پر گرنے کا منتظر ہوتا ہے، کسی طاقتور اور ذندہ جاندار کے پاس بھی پھٹکنے کی ہمت اس میں نہیں ہوتی مگر کمزور جسم کو ٹھونگیں مار مار کر بے جان کرنے میں مہارت رکھتا ہے، جیسے ہی مطلوبہ ہدف نگاہوں میں آجاتا ہے وہ درخت کے تنے سے خاموشی سے اڑتا، ہوا کو چیرتا، نیچے زمین کی طرف رخ کرتا ہے، اس پرواز کے دوران وہ ایک ہنگامی لینڈنگ کرتے ہوئے طیارے کی طرح لگتا ہے، لڑکھڑاتا ہوا وہ زمین پر پاؤں رکھتا ہے اور شکار کے قریب پہنچ کر اسے چونچ سے ٹٹولتا ہے، اگر شکار مرا نہ ہو اور اسکی طرف سے کچھ مزاحمت ہو تو چند قدم اڑ کر دور جا بیٹھے گا اور اسکے مرنے کا انتظار کرے گا ، وقفے وقفے سے پلٹ کر چونچیں مار کر اسکو نیم جان کر ے میں مدد دے گا۔ اور اس کے مر جانے کے بعد اس کے جسم کو نوچ نوچ کر کھائے گا اور پھر ایک مردار کے کہیں پائے جانے کی خبر گدھوں کی ساری کمیونٹی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے پھر انکے پروں کے ہرے آسمان سے نیچے اترتے اور اس مردار کے گرد اکٹھے ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور اسے نوچ نوچ کر اپنا اپنا حصہ وصول کرتے پیٹ بھرتے واپس ہو جاتے ہیں۔ ایک جاتا تو دوسرا آتا ہے یہ آنا جانا تب تک لگا رہتا ہے جب تک مردار ایک ڈھانچہ نہیں بن جاتا۔
بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے آجکل کے ویڈیو میکرز، ٹک ٹاکرز، یو ٹیوبرز، انسٹا گرامرز اور اسنیپ چاٹرز حتیٰ کہ فیس بک یوزرز کا یہ حال ہو چکا ہے کہ کہیں کوئی کہانی ملی اور یہ چڑھ دورے اس طرف۔ ایک آرہا ہے تو دوسرا جا رہا ہے۔ اپنا اپنا حصہ وصول کر رہا ہے۔ اور اپنے اپنے سبسکرائبرز کو ایجوکیٹ کر رہا ہے۔ اور جو سبسکرائب نہیں کر رہے ان کی ہاتھ کر جوڑ منتیں کی جارہی ہیں۔ بعض دفعہ اینکرز کے ایسے ایسے مضحکہ خیز تبصرےسننے کو ملتے ہیں کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور ایک قصے کی جان اسکا ڈھانچہ بننے تک نہیں چھوٹتی، پھر کہانی ہوئی پرانی اور کیمرے لیے ٹنڈ منڈ درخت پر نئی کہانی کی تلاش جاری۔ انکو اور انکی پھرتیاں دیکھ کر نضر بن حارث کا بھی گمان ہوتا ہے جو قرآن پاک کے مقابلے میں ایران و شام سے کلام دلفریب خرید کر لاتا اور لوگوں کو اللّٰہ کے راست سے ہٹا کر گمراہ کرتا۔ لیکن وہ آج کے دور میں آتا تو آج کے ان مووی میکرز اور رپورٹرز کی پھرتیاں دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتا۔
خدارا کچھ قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں۔ کچھ تحقیق اور سند ہونی چاہئے۔ کچھ اخلاقیات ہونے چاہئیں اور کچھ انسانیت بھی۔ ایک حادثہ ہو گیاہے خون بہہ رہا ہے زخمی کراہ رہے ہیں مردہ جسموں کے چیتھڑے اڑ گئے ہیں اور آپ انکے اوپر ویڈیوز شوث کر رہے ہیں۔ کیسے؟ ایک لڑکی شادی میں ڈانس کرتی ہے اور آپ اسے اٹھا کر وائرل کر دیتے ہو
ایک بچی پب جی کھیلنے والے کے ساتھ بھاگ جاتی ہے آپ انٹرویوز پر انٹرویوز لیتے جارہے ہو، والدین کی اذیت کا احساس تک نہیں آپ کو۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں جو گدھوں کی راجہ ہیں، اپنے کیمرے اور رپورٹر لے کر دوڑے آتے ہیں۔ پھر بین الاقوامی پابندیوں کی تلوار الگ سے لٹک جاتی ہے۔ چار بچوں کی ماں بھارت بھاگ جاتی ہے آپ اسے جاسوس لعنتی اور غدار ثابت کرنے ہے تل گئے ہو ۔ کیوں ایسے لوگوں کو مشہور کرتے ہو، کیوں اہمیت دیتے ہو ؟
گدھ بچپن میں دیکھے تھے اب بہت عرصہ ہوا نظر نہیں آئے۔ نا پید ہوتے جارہے ہیں، سنا تھا انہیں مردار سے کوئی بیماری لاحق ہوگئی اور یہ بھی مشہور ہے کہ پچھلی کسی حکوت نے انہیں بیرون ملک بھیج دیا تھا کہ سونامی کی باقیات کے لیے وہاں قدرت کے ان ڈی کمپوزرز کی ضرورت تھی۔ اور وہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا نہ کر سکے پھر ختم ہو گئے۔
اب گدھ اور نام نہاد اینکرز کا فعل تو ایک جیسا ہے مگر اثرات مختلف ہیں۔ گدھ قدرت کے وہ کارندے ہیں جو اپنے اس فعل سے ایک جگہ پڑی ہوئی گندگی کو اٹھا کر ماحول کی صفائی کرتے ہیں. تعفن، بدبو، جراثیم اور بیماری سے بچاتے ہیں مگر آج کے یہ کمپیوٹرائزڈ گدھ ماحول کی گندگی، جراثیم، بیماری، تعفن اور بدبو کو ایک جگہ سے اٹھاتے اور پورے عالم میں پھیلا دیتے ہیں جو انسانی اخلاقیات کی صحت پر بہت برے اثرات چھوڑ رہے ہیں۔ خدارا ان سے بچنے اور بچانے کی کوئی تدبیر کیجیئے۔