یہاں باتیں چھڑی ہیں عزت و محبت کی جبکہ زندگی نے ہمیشہ یہی سکھایا کہ ہر رشتے میں عزت و محبت کا اٹوٹ انگ دیکھا مگر پاکستان کا ویزہ رکھنے والے مرد حضرات کو ہمیشہ ان کے شوہر بننے سے پہلے انہیں ڈوز دی جاتی ہے کہ
” جے توں بیوی نوں چک کے پانی دا گلاس وی دتا ناں تے لوکی تینوں زن مرید آکھن گے تے فیر میں وی دودھ کوئی نئیں آؤں بشخنا “.
بس جی پھر تو شوہر کی” کرسی ” پر فائز مرد حضرات ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں یہ ثابت کرنے میں کہ
” ہم کوئی غلام ہیں؟”
“Absolutely not “
یہ کہانی کوئی سترہ اٹھارہ برس تک چلتی ہے پھر اچانک اس مرد کو یاد آ جاتا ہے کہ میں نے تو اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے
کس سے کرنی ہے؟
جو اسے عزت دے.
کسے ؟
بھئی “مرد” کی بیٹی کو ۔
اچھا آ ااااااااااا ۔
وہ بیٹی تو کسی کی بیوی بن کر جائے گی ۔
اور یہاں تو بیوی کو عزت دینے والے زن مرید۔
اب کیا کریں ؟
حالات بدل گئے ہیں مغفرت کے دعوے دار یا تو راہی عدم سدھار چکے ہیں یا اتنے نحیف و نزار ہو چکے ہیں کہ یاد داشت کام نہیں کرتی اب اپنی زندگی خود گزارو ہمیں نہ گناہ گار کرو ہم کیوں پابندی لگائیں تمہاری زندگی تمہاری مرضی ۔
ہماری زندگی ؟
ہاں تمہاری زندگی ۔
کون سی زندگی ؟
وہ والی جو ہماری تھی اور گزاری آپ نے؟
بچوں کی شادیاں کرو عزت دو عزت لو۔
عزت ؟
وہ تو مرد کی ہے
عورت کی عزت کون کرتا ہے ؟
بس خاموش بہت بولتی ہو جب بھی عزت ملے لے لو یہ نہ کہا کرو کہ پہلے ؟ کیوں؟ کیا؟ کب؟
جی بہتر۔
اب عزت دار “بیگم” کی دختر نیک اختر کی شادی خانہ آبادی ہے ۔
ہر سمت بیگم چھائی ہوئی ہیں ہار سنگھار کے ساتھ جوتی اور پرس سنبھالنا مشکل ہوا جا رہا ہے اور میاں جی کی “عزت ناک “فریفتگی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بیگم کا پرس اور ڈھلکتا آنچل دونوں سنبھالے بیوی کو عزت و احترام دینے کے تمام تر ریکارڈ توڑ رہے ہیں آخر کو داماد جی پر بھرم جو ڈالنا ہے کہ
” اچھے ،نیک خصلت،اور بہترین مرد بیوی کو عزت و محبت دیتے ہیں”.
لیکن یہ پھر اس تصویر کا ایک رخ ہے اس کا دوسرا رخ دلہن کے ماں باپ کی شوخیوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے دولہا میاں کے کانوں میں نصیحتوں کے رس گھولتی ہوئی دولہا کی اماں ۔
” دیکھ بیٹا دلہن کے ابا ناں پکے زن مرید لگتے ہیں اس عمر میں بھی بڑے میاں کیسے بیگم کے عاشق زار نظر آ رہے ہیں تم ناں پہلے ہی دن دلہن پر خوب رعب جما کر بہت دیھان رکھنا کہ کہیں سر پہ ہی نہ چڑھ جائے، کپڑوں، میک اپ اور حسن کی تعریف تو دور کی بات کوشش کرنا جو بھی کام کرے بس نقص نکالتے رہنا کچھ اچھا لگ بھی رہا ہو تو منہ بنا کر کہنا کہ۔۔۔
” بس ٹھیک ہے”.
ادھر اگلے سترہ اٹھارہ سالہ بے عزتی پلان کی تیاری اور ادھر گزرے سترہ اٹھارہ برس کی ندامت و مایوسی امید و بیم کی کیفیت میں ہے چار آنکھیں اپنی متاعِ جاں رخصت کرتے ہوئے اس کی عزت وچاہت کے خواب بن رہی ہیں دو آنکھوں میں ندامت کے آنسو ہیں اور دو آنکھوں میں اس ندامت پر عفو و درگزر کے آنسو ہیں۔
مگر وقت کہاں یہ سب دیکھتا ہے وہ تو اپنے کاسے میں بے سمے کی بہار بے وقت کا عزت و پیار سب بہا کر لے جاتا ہے کہ دل کب ان باتوں کا عادی ہے وہ اپنی بے عزتی تو سہہ گیا بیٹیوں کے دکھ کیسے جھیل سکتا ہے ۔
دل کے بائیں طرف ہوتے درد نے یاد کرادیا بیٹیوں کی مائیں کیوں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کی مریض بن جاتی ہیں انہیں دہرا عذاب ادھ موا کردیتا ہے۔