پاکستانی سیاست کا منظرنامہ بظاہر بہت مایوس کن نظر آرہا ہے، قومی اتحاد پارہ پارہ ہے اور سیاستدان نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں بلکہ مخالفت کی آخری حدوں کو بھی پار کر گئے ہیں، شیخ رشید جیسے سیاستدان جو پی ٹی آئی کے جلسوں میں جلاؤ اور گھیراؤ کے لیے کھلے عام عوام کو اکسایا کرتے تھے اب وہ پس پردہ ہیں اور سیاستدانوں کی باہمی چپقلش راکھ میں چھپے انگارہ کی مانند ہے۔
ایک عرصہ سے سوشل میڈیا کے ذریعے اور ویسے زبان زد عام یہ بات کہی جارہی ہے اور اس کا ابلاغ زور و شور سے کیا جارہا ہے کہ اس ملک کو ایک خونی انقلاب کی ضرورت ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر کرپشن کے ذمہ داروں کو پھانسیاں دی جارہی ہوں اور فائرنگ اسکواڈ کے سامنے بٹھایا جارہا ہو اور اس حوالے سے کچھ نئی بنائی ہوئی کہانیوں اور کہاوتوں اور کارٹون کی شکل میں مخالف سیاستدانوں اور ملکی اداروں کی تضحیک کی جا رہی ہےاور کچھ پرانی پرانی مختلف ممالک کی ویڈیوز نئے نئے عنوانات کے ساتھ منظرعام پر لائی جاتی ہیں جس میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہ ہی پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے اور سیدھی راہ پر لانے کاایک ہی اور آخری حل ہے، طاقت کے مراکز پر براجمان لوگوں کے خلاف فضا بنائے جانے کا کام ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ نظر آرہا ہے، حکومت مخالف سیاستدانوں کا ایک گروہ طاقت کے مقابلے میں طاقت کے استعمال کا عندیہ دے کر مشتعل ذہنوں کو اندھا دھند بند گلی کی طرف دھکیل رہا ہے، محروم طبقات کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کرائی جا چکی ہے کہ عوام الناس کی جملہ پریشانیوں، محرومیوں اور معاشی پریشانیوں کا ذمہ دار حکمران طبقہ رہا ہے جنہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں ملک کے خزانے سے بیرون ملک اپنے اثاثوں اور اپنے بینک بیلینس میں اضافہ کیا، مشکل وقت میں یعنی جب وہ حکمرانی سے باہر ہوتے ہیں تو بیرون ملک اپنی زندگی بلا خوف اور عیش کے ساتھ گذارنے کا بندوبست کر چکے ہوتے ہیں، ان سب حقائق کے باوجود قوم ایک مرتبہ پھر آنے والے نام نہاد الیکشنز میں (اگر وہ الیکشن ریفارمز اوز شفافیت کے بغیر ہوتے ہیں) دھوکا کھانے والی ہے کہ جس کا ایک مظہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں بدترین انتخابی دھاندلی تھی، الیکشن کمیشن نے ملک کے عدالتی نظام کی موجودگی میں مقرب اور موقر اداروں کے مشاہدے اور انتظامیہ کی سرپرستی میں جماعت اسلامی کو بظاہر شکست سے دوچار کیا اور پیپلز پارٹی کو مطلوبہ نتائج سے سرفراز کیا، اس طرح معاشرہ کے طبقات میں سے ملکی تعمیر اور ترقی کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم کیے لوگوں کو بددل کرنے کی اور انہیں ان استعماری طاقتوں سے غیر اصولی مصالحت اور آگے ٻڑھتے ہوئے پرعزم لوگوں کا راستہ روکنے کی اور انہیں دلبرداشتہ کرنے کی حکمت عملی کی فضا اور منظر ہردرد دل رکھنے والا اور ہر جاگنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ اپنے لیڈروں اور سیاستدانوں کی موافقت اور مخالفت میں باہمی اختلافات ذاتی دوستیوں سے ذاتی دشمنیوں میں بدل جاتے ہیں، رشتہ داروں اور حلقہ احباب سے تعلقات علیحدگی کی طرف دھکیلتے بلکہ ایک سرد مہری اور لاتعلقی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں اور آپس کی ان چپقلشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور آپس کی دوریوں کے سبب عوام ان حکمرانوں سے کوئی مؤثر احتجاج کے قابل نہیں، روز مرہ کے مسائل میں الجھے عوام الناس کو آئے روز نت نئے ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے با آسانی دبایا جارہاہے اور ان کا والی وارث کوئی نہیں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کا بیانیہ ان سابقہ حکمرانوں کی طرح ہوتا ہےجو آج ان کی مخالفت میں ہیں اور یہ آج کے مخالفت کرنے والے حکمران جب اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں تو سابقہ حکمرانوں کے بیانیے کو اپنا لیتے ہیں، دور کیوں جائیں کل تک پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی مہنگائی کے خلاف جلوس نکال رہے تھے اور عوام کو بتا رہے تھے کہ مہنگائی کا سبب حکمران پی ٹی آئی ٹولہ ہے اور اس کا حل ہے کہ حکومت میں ان کو لایا جائے، اب جب کہ پی ڈی ایم کے نام سے یہ ٹولہ حکمرانی کے مزے لوٹ رہا ہے، ان کے دور میں مہنگائی دن دونی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہےتو اب یہ پلٹ کر مہنگائی کے حوالے سے پوچھتے ہی نہیں، پی ٹی آئی کے دور میں مہنگائی کے فضائل بیان کیے جاتے تھے اور بتایا جانے لگا تھا کہ اس مہنگائی نے تو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جو کہ کچھ غلط بھی نہیں تھا، حالانکہ اگر پی ٹی آئی ریاست مدینہ کے مؤقف کو اپناتے ہوئے سودی معیشت کو ختم کرنے اور اسلامی معیشت کے نفاذ کا عزم کرتی اور اس راستہ کا تعین کرکے اس کی طرف چل ہی پڑتی توکیا ہم رب عظیم کے شریعت کے نفاذ کے وعدوں کو خوشحالی کی صورت میں اپنے وطن عزیز میں اپنی آنکھوں سے کیا نہیں دیکھ سکتے تھے؟، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا پی ٹی آئی نے لوگوں کو مایوس کیا اور وہ الیکشن میں کیے ہوئے بڑے بڑے وعدوں میں سے کوئی وعدہ بھی وفا نہ کرسکی۔
بڑی کاوشوں اور کوششوں کے بعد نہ صرف موجودہ حکومت کا imf سے معاہدہ ہو گیا ہے بلکہ imf نے آئندہ کی حکمرانی کی دوڑ میں شامل پی ٹی آئی سے بھی اس بات کی ضمانت لے ہے کہ ان کا معاہدہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہو گا تاکہ غلطی سے بھی آج یا آنے والے کل کا کوئی حکمران عوام کو سہولیات یا ان کی روز مرہ زندگی میں آسانیاں لانے کا سوچے بھی نہیں، imf کو ادائی سود اور دیگر ادائیاں متاثر نہ ہوں، دوست ممالک سے ڈالروں کی بھیک کشکول میں جمع بھی کی جارہی ہے اور غریب عوام کو ایک مرتبہ پھر مہنگائی کے عفریت کا سامنا ہے اور فوری طور سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، عوام ہر نئے ٹیکس اور روز افزوں مہنگائی جو زیادہ ہمارے حکمرانوں کی مسلط کردہ اور کچھ ہمارے تاجروں کی حد سے زیادہ منافع خوری اور چور بازاری کے سبب ہے، منیر نیازی کے اس شعر کی مانند ہیں،،،،
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
9 مئی کے واقعات سے پہلے جناب سراج الحق پورے میڈیا کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوۓ تھے وہ حکمرانوں سمیت تمام سیاستدانوں کو آنے والے وقت کا ادراک کرا رہے تھے کہ سیاسی محاذ آرائی میں کہیں جمہوریت کی بساط ہی نہ لپیٹ دی جائے اس سے پہلے پہلے افہام و تفہیم کا راستہ نکالنے کے لیے مل بیٹھیں، دونوں فریق مذاکرات کے لیے بیٹھ تو گئے مگر ان مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا، غیر مصالحانہ ذہن کے ساتھ مذاکرات کا منطقی نتیجہ وہی نکلا جس کی توقع تھی، نتیجے میں پی ٹی آئی کا جو نقصان ہوا سو ہوا، آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کا ٹولہ بھی نقصانات سے نہیں بچ سکے گا، ان حالات میں استحکام پاکستان پارٹی نئے اُفق سے طلوع ہونے جارہی ہے اور آنے والا وقت ہی اس کے مستقبل کا تعین کر سکے گا۔
ایسے ماحول میں جماعت اسلامی سود کے خلاف ایک بار پھر مزاحم ہے اور معاشرے کے مختلف طبقات اور علماء کو ساتھ ملا کر اس لعنت کے کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ جیسے گھناؤنے فعل کے حوالے سے آگہی اور کوششوں میں توانائیاں صرف کر رہی ہے اور جدوجہد کا پیکر اور استعارہ ہے، جماعت اسلامی کی روایات کے عین مطابق محترم سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان اپنے کردار کی شفافیت اور جرات اظہار اور دانشمندی کے ساتھ سابقہ امراء جماعت کی روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں، قومی اسمبلی میں جناب چترالی صاحب اور سینیٹ میں جناب مشتاق صاحب جرات اظہار کے ساتھ حق کا آوازہ بلند کر رہے ہیں۔
پاکستانی عوام انگریزوں کے تسلط سے تو آزاد ہو گۓ لیکن انگریزوں کے دیے ہوئے نظام کے تسلط سے آزاد نہیں ہو سکے، ذہنی طور سے اس نظام کی مرعوبیت میں ان کو رکھا گیا ہے، انگریزی زبان اور لباس اور اس کی مرعوبیت سے ان کو کلی چھٹکارہ نہیں مل سکا ہے، عوام کو بنیادی ضروریات اور سہولیات کا فقدان ہےاور اشرافیہ نے ان کو ابھی تک محتاج بنا کر ظلم اور ناانصافی کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، شہروں کی صورتحال تو سب کے سامنے ہے، گاؤں دیہات اور قصبوں کی زبوں حالی کا رونا نہ ہی رویا جائے تو بہتر ہے، یہاں کے باسی تو اپنے بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں اور سہولیت کے حوالے سے تو کسی گنتی ہی میں نہیں ہیں۔
جماعت اسلامی ایک دعوتی اور اصلاحی تحریک ہے اور خدمت خلق بلا تفریق اس معاشرے میں اس کی پہچان ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اسلامی اپنے اصلاح معاشرہ اور دعوت کے کام کو گلی محلوں میں مذید وسعت دے اور جہاں جہاں یہ دعوت اور پیغام نہیں پہنچا ہے اس کے لیے ایک نئی منصوبہ بندی کرے اور اصلاح معاشرہ کے اس پروگرام کو جو، جماعت اسلامی کی دعوت کے تین نکات، بندگی رب اور اطاعت رسول، دورنگی منافقت اور تناقص سے پاک زندگی، فاسقین و فجار سے زمام کار لے کر صالحین کو دینا، ان تینوں نکات کا بڑے پیمانے پر عوام میں آگہی کا ایک قلیل المعیاد منصوبہ بنایا جاۓ اور ایک منظم انداز میں مسلسل آگے بڑھتے ہوۓ اس کا جائزہ بھی لیا جائے تاکہ بروقت کمزوریوں کو دور اور راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جا سکے، دراصل اصلاح معاشرہ کا یہ ہمہ گیر پروگرام عوام کی خوش حالی، معاشی ترقی اور امن و امان کا ضامن ہے، لوگوں کو وسیع پیمانے پر یہ ادراک کرانے کی ضرورت ہے کہ قرانی تعلیمات پر عمل درامد سے ہی فرد اور حکومت کی خوشحالی جڑی ہے اور اسی میں محرومی اور افلاس کا علاج پوشیدہ ہے، ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اسلامی معیشت کے ماہرین سے لے کر ہر شعبہ زندگی میں ماہرین موجود ہیں جو ایک حقیقی فلاحی معاشرہ اور پاکستان کو خوشحالی اور ترقی کے راستہ پر گامزن کرنے کی استعداد اور صلاحیت کے حامل ہیں۔
نوجوانوں کی بے راہ روی جو کہ میڈیا اور انٹرنیٹ کے بسہولت حصول کی وجہ سے وسیع معانی اظہار پیرایہ بن چکا ہے، یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن ہمارا میڈیا اور سیاسی طور طریق ان مسائل کو مسائل سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں، ان تمام مسائل کو اُجاگر کرنے اور ان کا حل عوام الناس کو بتانے اور بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی ضرورت ہے۔
سیاسی منظرنامہ مایوسی سے اُمید افزا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہی دی جائے کہ وہ مایوسی کی دلدل سے نکلیں اور اپنی سوچ کو بدلیں جب ہم اپنی سوچ کو بدلیں گے تو بہت کچھ از خود ہی تبدیل ہو جائے گا، جماعت اسلامی کی دعوت اور پیغام کا اگر بڑے پیمانے پر پرچار کیا جائے اور قران اور سنت سے آگاہی کی ایک مسلسل مستقل اور مربوط مہم چلائی جائے، جماعت اسلامی بحثیت ایک دینی جماعت کے معاشرے میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے لیکن اپنے پیغام اور دعوت کے لحاظ سے کئ جگہ پر ادھوری اس لحاظ سے کہ جماعت اسلامی جو ہے لوگ اسے سمجھتے نہیں ہیں اور دعوت کی کمی یا کاوشوں کی کمزوری کے سبب کئ جگہوں پر ابھی بھی اجنبی ہے، اس سب کے باوجود جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکن کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے ہیں اور پاکستان کے طول وعرض میں اس کے پر جوش اور پر خلوص کارکنان اور متاثرین موجود ہیں۔
وقت کی پکار ہے کہ موجودہ گھمبیر سیاسی صورتحال کی وجہ سے اس کی دعوت کی لو اور اس کے پیغام کو مدھم نہ پڑنے دیا جائے، جماعت اسلامی اس ملک میں کیا چاہتی ہے اس کا مکمل منصوبہ قائد تحریک اسلامی سید مودودی ایک وسیع لٹریچر کی شکل میں چھوڑ گئے لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قلیل المعیاد منصوبہ بھی خاص و عام کے علم میں لایا جائے اور بجائے اس نہج پر تفکر کرنے کے کہ لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے لوگوں کی سوچ کو بدلنے کی حکمت عملی تیار کی جائے کہ لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کے اعتبار سے اپنی پہلی ترجیحات میں کیوں رکھیں؟، سوشل میڈیا کے استعمال کو مذید موثر بنایا جائے اور دنیا کو بتایا جاۓ کہ سوشل میڈیا کا مہذب اور مثبت استعمال اپنے اندر بہت جاذبیت اور قبولیت رکھتا ہے، بنو قابل پروگرام کا لانچ اس کی ایک روشن مثال اور بڑے حوصلہ افزا نتائج کا حامل ہے، ایسے حالات میں وہ قوتیں جو جماعت اسلامی کی الخدمت کی صورت میں خلق خدا کی خدمات اور پیغام سے خوفزدہ ہیں وہ اپنے فرماں بردار بچوں کے ذریعے ان کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے نہ صرف منصوبہ بندی میں مصروف ہیں بلکہ عمل پیرا بھی ہیں، لیکن اللہ کا فرمان ہے ” انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا، اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ ان سے ٹل جائیں” سورہ ابراہیم آیت 46
ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی مرتب کردہ پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اس راہ پراس نظریہ کے ساتھ سفر جاری رکھنا کہ موجودہ سیاسی حالات میں جماعت اسلامی کا پیغام اور دعوت ایک امید کی کرن ہے، کوشش اور جدوجہد سے ہی عبارت ہے تحریکی سفر، کوشش بہرحال ضروری ہے اور نتائج کی بہرحال جماعت اسلامی مکلف نہیں، نتائج کے مکلف ہونے کا جب بھی اس نے ذمہ لے لیا خدانخواستہ الٖہی تائید سے محروم نہ ہو جائے۔
تیز ترک گامزن منزل مادور نیست
ذرا اور تیز قدم اٹھا، ہماری منزل دور نہیں ہے