“علم ایک دولت ہے” بچپن سے یہ جملہ پڑھتے آ رہے ہیں علم نے ہی حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کا بیج دلوایا۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں کوئی شک دکھائی نہیں دیتا کہ یہ سب باتیں دُرست تھیں اس علم کی بدولت مسلمانوں نے عروج حاصل کیا تو جب علم کا ذکر آیا تو تعلیمی ادارے کا خیال خود بخود ذہن میں آتا ہے کہ اس دور میں کیا ہی تعلیمی ادارے ہوں گے جہاں مسلمان نسل کی تربیت ایسے کی جاتی کہ وہ اسلام کا نام روشن کر سکیں۔ جو اسلام کی فتوحات کے جھنڈے گاڑ سکیں.
افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنا مقصد حیات ہی بھول گئے وہ فتوحات تو کیا کریں گے مسلمان کہلانے کے بھی قابل نہیں رہے اور اس میں قصور سراسر تعلیمی اداروں اور ان میں دی جانے والی غلامانہ تعلیم کا ہے ان اداروں کے سربراہان کا ہے جن کے باپ دادا نے انگریزوں کی چاکری کی اور اب بھی اپنی غلامانہ ذہنیت اس قوم کے نونہالوں پہ تھوپنا چاہتے ہیں جنہیں دو قومی نظریے کی الف ب بھی نہیں پتا جو ہندؤوں سے الگ ہونے کے باوجود بھی دل میں ان کے دیوتا سجائے بیٹھے ہیں.
سندھ حکومت کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ تعلیمی اداروں میں موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دی جائے گی اور اس کے لیے خاص اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے سندھ میں پہلے ہی تعلیم کا برا حال ہے رہی سہی کسر اس اقدام نے نکال دی۔ افسوس ان بکے ہوئے غلام حکمرانوں پہ نہیں ہوتا پاکستانی عوام پہ ہوتا ہے جو بھول چکے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں یہ ناچ گانا ان کے مذہب کا حصہ نہیں یہ انگریزوں اور ہندؤوں کا کلچر ہے.
آج مائیں اپنے بچوں کو اپنے اسلاف کے کارنامے بتانے کی بجائے انھیں میوزک کی ترغیب دیتی دکھائی دیتی ہیں کیا وہ بھول گئیں کہ روز حشر کیا جواب دیں گے اللہ کو کہ جو اولاد ہمیں دی اس کی تربیت کیسے کی؟ آج مسلم امہ کو” گویوں” کی نہیں ایسے قابل افراد کی ضرورت ہے جو اسلام کا نام سر بلند کر سکیں جو باطل قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔
یاد رکھیں اگر آج ہم خاموش رہے تو ہماری نسلیں تباہ ہو جائیں گی دنیا میں تو ذلت مقدر ہو گی ہی آخرت بھی ہاتھ سے جائے گی۔ آئیں مل کر آواز اٹھائیں کہ ہمیں یہ لا دینیت کی تعلیم منظور نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس حکم نامے کو واپس لیا جائے اور تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہاں کوئی بھی ایسی تعلیم نہ دی جائے گی جو اسلامی اقدار کے منافی ہو۔ آئیے میری آواز میں اپنی آواز ملائیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے.