پاکستان کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے جریدہ، سب سے بڑے نیوزگروپ کے مورخہ 7 جولائی کے انٹرٹینمنٹ پیج نے ایک مضمون شایع کیا ہے جس کا عنوان ہے ” پاکستان کی پانچ امیر ترین اداکارائیں کون ہیں” اخبار لکھتا ہے…..پاکستانی اداکارائیں انتہائی با صلاحیت ہیں اسی لیے تو ان کی اداکاری اور خوبصورتی کی تعریف نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی کی جاتی ہےـ یہ خوبرو اداکارائیں اپنے جلووں اور صلاحیتوں کے سبب اسکرین پر بے حد پسند کی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شائقین کی جانب سےانہیں دیکھنے کی خواہش کے سبب ہی انہیں زیادہ پروجیکٹس میں کاسٹ کیا جاتاہے” اخبار آگے جاکر مختلف اداکاراؤں کی آمدنی کی تفصیل بتاتا ہے، اخبار کےتئیں خبر کے اس حصے میں جو اداکاراؤں کی ہوش ربا آمدنی کی تفصیل کا جو بھی مقصد ہو لیکن اس قوم کی بے روز گار اور ضرورت مند بیٹیاں ایک بار ضرور ماڈلنگ کے شعبہ میں آنے کا سوچ سکتی ہیں جو کہ اب ہمارے معاشرہ میں قابل اعتراض بات نہیں رہ گئی ہے، لیکن ہمارا موضوع خبر کا یہ حصہ نہیں ہے گو کہ اس پر بھی بات کرنی ضروری ہے لیکن آج کی ہماری گفتگو خبر کے پہلے حصہ پر ہے جو کہ اس خبر کا عنوان بھی ہے.
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور آج بھی اکثریت اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے تیار رہتی ہےلیکن المیہ یہ ہے کہ اکثریت کی نمائندگی کرنے والے جو طبقات اور سیاستدان آج تک اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے زبانی اور کلامی تو اسلام کی بہت بات کی ہےلیکن وہ جب بھی اقتدار کی گلیوں میں آئے ہیں انہیں اپنی اسلام کے حوالے سےنہ تقاریر یاد آئیں اور نہ اسلامی نظام کے حوالے سے نعرے اور نہ ہی وعدے بلکہ برائی، بے حیائی، فحاشی اور عریانی می اضافہ ہی کر کے دم لیا ہے، دوسری جانب عوام ہیں جب بھی انہیں دینی حمیت کے حوالے سے پکار دی جاتی ہے، مذہبی دینی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے وہ بڑی تعداد میں نکل کر اپنے جذبات کا اظہار تو کرتے ہیں، لیکن جب شرعی قوانین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہوں تو وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، یہ ہمارا یقینی طور سے قومی المیہ ہے لیکن اس کے ذمہ دار ہمارے سیاسی قائدین ہیں، دینی اور مذہبی جماعتوں کا اس لیے تذکرہ لا حاصل ہے کہ صحیح یا غلط جتنی بڑی تعداد میں عوام ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے نوازتے ہیں اور یہ جماعتیں ملک کے طول و عرض سے لوگوں کا اعتماد بہرحال حاصل کرتی ہیں دینی اور مذہبی جماعتیں فی الحال ان سیاسی جماعتوں کے سامنے کسی گنتی میں بھی نہیں ہیں، اس لیے بنیادی طور سے جب تک ہم برائی ، بے حیائی، فحاشی اور عریانی کے فروغ کے ذمہ داروں کا تعین نہ کرلیں ہم ان برائیوں کو دور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ویسے تو اللہ تعالیٰٖ کی ذات ہر وقت دلوں کے بدلنے پر قادر ہے.
خبر بتارہی ہے کہ ان اداکاراؤں کی خوبصورتی کے کتنے مداح ہیں اور یہ اداکارائیں اپنے جلووں اور صلاحیتوں کے سبب اسکرین پر بے حد پسند کی جاتی ہیں اور شائقین کی جانب سےانہیں دیکھنے کی خواہش کے سبب انہیں زیادہ کاسٹ کیا جاتا ہے، آج ہمارا معاشرہ اخلاقی تنزلی کے اس درجہ پر پہنچ گیا ہےکہ مذکورہ اخبار نے بلا جھجھک اور آزادانہ انداز میں لوگوں کی پسند کی وجوہات کو شائع کیا.
حسن نثار ایک مانے جانے صحافی ہیں اور ان کے اپنے نظریات کی مخالف نظریہ کی حامل طلبہ تنظیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے گویا ہوئے” جب لوگوں کی بہو بیٹیاں تعلیمی اداروں میں پڑھتی ہیں تو رائے اور ہوتی ہے جب اپنی بہو بیٹیاں جانے لگتی ہیں تو رائے بدل جاتی ہے” پھر وہ مذید کہتے ہیں ” ایک نوجوان جب تعلیمی ادارہ میں ہوتا ہےتو ایک اور طرح کا ماحول چاہتاہےجب اس کی اپنی بیٹی اسی ادارے میں جانے لگتی ہے تو وہ ایک اور طرح کے ماحول کا متلاشی ہوتا ہے”
یہ وہ معاشرے کے تضادات ہیں جن کی آج، کل سے زیادہ نشاندہی کی ضرورت ہے اور اس ذہنیت کے علاج کی ضرورت ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ معاشرہ میں قرآنی تعلیمات کا فقدان ہے لیکن چند چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ہم ان کو دینی تعلیمات کے حوالے سے اہمیت نہ دیں لیکن یہ ہماری روایات کے برخلاف ہیں اس میں اہم ترین چیز حیا کا فقدان ہے، رسول اللہ نے فرمایا اور جس کا مفہوم ہے “جب تم حیا نہ کروتو جو چاہے کرو” ہمارا المیہ یہ ہے کہ مغربی افکار اور مغربی تہذیب کی یلغار نے معاشرہ کو اتنا بے حس بنادیا ہے کہ اب حیا اور بے حیائی میں فرق مشکل ہو گیا ہے وگرنہ اگر ہمیں شعور ہوتا تو اس مقام پر ہمارا معاشرہ نہ کھرا ہوتا آج بے حیائی کے جس مقام پر کھڑے ہوئے ہم اسے دیکھ رہے ہیں یقین نہ آئے تو کسی بھی شاپنگ مال میں چلے جائیے وہاں خواتین جن لباسوں میں (بقول خبر جلوے اور حسن بکھیرتے ہوئے) نظر آتی ہیں وہ بہرحال کوئی حیا والے مناظر تو نہیں ہوتے ہیں مشرقی پہناؤوں سے دل بھر گیا ہے لہذا اب مغربی لباس اختیار کیا جانے لگا یا مشرقی پہناوے ایسے کہ الامان الحفیظ دوپٹے کا تصور تو ہمارے چینلز فنا کرچکے، دوپٹے کا تصور ختم ہوا اور اس کے ساتھ حیا بھی ختم ہو گئی اب اگر اسی شاپنگ مال میں کسی خواتین کے ملبوسات کے شو روم کو باہر سے ہی دیکھیں تو مجسموں کو جس قسم کے لباس سے زینت نگاہ بنایا ہے ہم اور آپ تو شاید نہیں لیکن شیطان ضرور شرمائےگا.
کسی برانڈڈ سوٹ کے کپڑے کا پیکٹ اٹھا کر دیکھ لیجیے کسی نہ کسی خاتون کی تصویر اداؤں کے ساتھ اس سوٹ کی ماڈلنگ کے ساتھ موجود ہوگی جس میں دوپٹہ جس مقصد کے لیے پہنا جاتا ہے اس مقصد کو وہ آوازیں دے دے کر شرمندہ کر رہا ہوتا ہے اور اگر اس پیکٹ کے اندر موجود کپڑے کو دیکھیں تو اتنا باریک ہوتا ہے کہ دینی حمیت اس کو گوارا نہیں کرتی کہ اس طرح کا کپڑا اور ڈیزاین جو پیکٹ پر ماڈل کی تصویر کے ساتھ ہوتا ہے مسلمان بیبیاں زیب تن کریں لیکن یہاں بھی یہی فلسفہ کام کر رہا ہے کہ لوگ ان خواتین کو ان کپڑوں میں دیکھ کر زیادہ پذیرائی دیتے ہیں.
بات جب لوگوں کی پسند کی ہو رہی ہےتو سیاسی جماعتیں کیوں پیچھے رہیں چنانچہ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے جب چینلز پر ٹاک شوز میں ان سیاسی جماعتوں کی خواتین آتی ہیں تو ماسوائے دینی جماعتوں کےتمام تر سیاسی جماعتیں جو آج اقتدار میں ہیں اور آج جو اپوزیشن میں ہیں ذرا ان خواتین کے حلیے ذہن میں لائیں تو یہ کیسے بے حجابانہ انداز میں اپنی پارٹی کا مؤقف کم اور ذاتی نمائش کا پہلو زیادہ پیش کر رہی ہوتی ہیں اور اس کے پیچھے وہی سوچ ہے کہ شائقین کی دیکھنے کی خواہش اور پذیرائی،،،
بات جب میڈیا کی آہی گئی ہےتو ذرا میڈیا پر چلنے والے اشتہارات پر بات ہو جائے صابن کا اشتہار ہو کہ شیمپو کا اشتہار ہو چاکلیٹ کا اشتہار ہوپنکھے کا یا فرج اور اے سی کا یا موسم کے حوالے سے کپڑوں یا کولڈ ڈرنک اور جوشاندے کا اشتہارحتیٰ کہ خواتین کی ذاتی استعمال کی چیزوں کو بھی اب نہیں بخشا گیا ہے پراپرٹی کا اشتہار ہو انٹر نیٹ پرووائڈرز کا اشتہار ہوکس کس اشتہار کا نام لیا جائے، چینلز کے انٹرٹینمینٹ کے پروگرامز ہوں ذرا سوچئے خواتین کو ان لباسوں میں اور کلوز اپ کے ساتھ کیوں دکھایا جارہا ہے، کیا اشتہار میں آنے والی پرڈکٹس او چینلز کے پروڈیوسرز کو یقین نہیں ہے کہ جب تک عورت کو اور اس کی نمائش کو اپنی پروڈکٹس اور پروڈکشن کے ساتھ نتھی کرکے اشتہار اور شوز نہیں دکھائیں گے لوگ ان کی چیزوں اور شوز کی جانب متوجہ نہیں ہوں گے، دراصل یہاں بھی وہی جذبہ ہے جو کہ شیطانی جذبہ ہےکہ لوگ ان پروڈکٹس اور شوز کے اشتہارات کے وسیلے سےاشتہار میں اور شوز میں ماڈلز اور دیگر خواتین کے کلوز اپ کے جلوے اور حسن اور ادائیں دیکھنے کےشوقین ہیں.
ابھی ذوالحج کا مہینہ گذرا نہیں ہےاس سے پہلےبرکتوں والا عظیم ماہ رمضان اور تراویح اور ختم قران کی محفلوں کو گذرے کتنا عرصہ گذرا ہےاور کتنے عرصے کی بات کیا کتنے برس گذر گے پاکستان بنےاور کیا لوگ جب سےعمرہ حج اور رمضان کی برکتوں اور فضیلتوں سےکیا ہمارے عام کیا ہمارے سیاستدان اور کیا حکمران ان عظیم مہینوں کی برکتوں سےاور عظمتوں سے فیضیاب نہیں ہو ئےلیکن بظاہر ہمارے آج اور کل میں کوئی تغیر اور فرق نہ محسوس ہو رہا اور نہ نظر آرہا ہے اور اب بے حسی اتنی بڑھ چکی ہےکہ ہمیں احساس بھی نہیں کہ من حیث القوم ہم کس گڑھے میں مسلسل گرتے جارہے ہیں اور اب حالت یہاں تک جا پہنچی ہےکہ اداکاراؤں کے جلووں اور حسن کی خبریں اور ان کے شائقین کی خبریں اخبارات ، چینلز اور سوشل میڈیا پر بلا خوف و جھجھک چھپتی بھی ہیں اور چلتی بھی ہیں (کہ لوگ جلوے اور خوبصورتی دیکھنے کے خواہش مند اور شائق ہیں) حکومتوں، اداروں اور سیاسی جماعتوں کی اپنی مصلحتیں ہیں اگر وہ اس معاملہ پر کوئی موقف اختیار کرتی ہیں تو یقینی طور سے ان کا ووٹ بینک متاثر ہو گا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اب مذہبی اور دینی جماعتیں بھی اس فریضہ سے کنارہ کش ہو چکی ہیں کہ ملک عزیز میں اس بے حیائی عریانی اور فحاشی کے تدارک کے لیےآواز اٹھائیں یہ کام فقیر کی اس صدا کے مصداق نہیں ہےکہ جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا لیکن جب کوئی اس فریضہ کو ادا ہی نہیں کر رہا تو جو لوگ صاحب دانش اور ہوش مند ہیں وہ اپنے اپنے سرکلز میں اپنی سیاسی وابستگیوں کے حوالے سےاس بات کا شعور کہ حیا میں ہی ہماری بقا ہے کا پیغام اور شعور اپنے لوگوں کو دیں.
گذشتہ دنوں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کے ہر شہر ہر گاؤں ہر قریہ سے لوگ نکلےکہ سویڈن سرکار کی سرپرستی میں قرآن کو جلایا گیا اور ایک بڑی تعداد میں لوگ سویڈن کے سفارتخانے تک جا پہنچے اور جو نہ پہنچ پائے انہوں نےجگہ جگہ اپنے جذبات کابرملا اظہار کیا اور سفیر سویڈن کی ملک بدری کا مطالبہ بھی کیا لیکن افسوس کا مقام ہےکہ جس قرآن کی عظمت اور حفاظت کے لیے انہوں نے اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کرنے کے عزم کا اظہار کیا، کیا وہ ہی اس قرآن سے اور اس کے واضح احکامات تک سے اس حد تک بے وفائی کرسکتے ہیں کہ حیا حجاب عریانی اور فحاشی کے حوالے سے واضح احکام قرانی سے صرف نظر کریں اور ملک کا سب سے بڑا نیوز گروپ یہ خبر دینے پر مجبور ہو جائے کہ اس ملک (جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا) کے لوگ آج اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ برملا بے جھجھک یہ خبر دے سکیں کہ لوگوں کی اکثریت اداکاراؤں کے جلوے اور ان کے حسن کو دیکھنے کی شائق ہے.