حق وہ ہوتا ہے جسے خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہذا اس دنیا میں دو چیزیں حق ہیں۔ایک اللہ کا قرآن اور دوسری محمد صل اللہ علی و الہ وسلم کی ذات، قرآن کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں سماعت، بصارت،اور سوچنے سمجھنے والے دل عطا فرمائے۔ ان تینوں چیزوں کو استعمال کر کے جو فطرت کے اندر توحید کے شعور کو نہ پہچان پائے۔وہ نہ صرف جانور بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔
سویڈن میں ہونے والا واقعہ اس بات کا گواہ ہے کہ بظاہر تعلیم یافتہ، انسانیت کے علمبردار، نام نہاد آزادی کے امین کہلانے والوں کی دنیوی اور مادی ترقی ان کے کسی کام نہ آئی۔ وہ اندھے، بہرے گونگے ہیں۔ اور اپنی اسی جہالت و گمراہی کا اظہار کرنے کے لیےوہ بغیر دلیل کے مختلف ہتھکنڈے آزماتے رہتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ نبی صل وسلم کی زندگی میں ہی قرآن پر، خود گھڑنے، کسی شاعر کا کلام ہونے، منتشر خیالات کا مجموعہ وغیرہ جیسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ استہزا کے کئی پہلو اپنائے گئے۔ اور اہل باطل حتی الامکان کوشش کرتے رہے کہ یہ کلام کوئی سننے نہ پائے۔ کیوں؟ اس لیے کہ قرآن خود اپنی حقانیت کی دلیل رکھتا ہے۔ جس جس نے توفیق خدا و ندی سے سنا، اور سماعت کا حق ادا کیا اس کی زندگی بدل گئی۔ لہٰذا خیر اور شر کے وہ دو پلڑے اج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ اور دشمن حق کے دل میں اسی بغض و عناد کا بیج آج بھی پنپ رہا ہے۔ بس اظہار خباثت کے طریقہ کار بدل گئے ہیں۔
۔2001 میں امریکہ کے ایک رسالے میں برناڈلوس نے آرٹیکل لکھا جس کا نام(the roots of muslims range)تھا۔ جس میں اس نےاپنا خیال بتایا کہ مسلمانوں کے غصے کے اسباب کیا ہیں۔ اس کے بعد اسی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس نے ایک کتاب(crisez of islam)لکھی جس کے ذریعے اس نے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ یہ اس لیے لڑتے ہیں کہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لڑنا سکھایا ہے۔ حلانکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو جتنی خونریز لڑائیاں عیسائیوں کی تاریخ میں ہوئی ہیں۔ اتنی مسلمانوں کی ہرگز نہیں۔ شر کے دشمن کی دشمنی کی کوئی حد نہیں ہوتی یہ اپنی دشمنی کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے قوت کا غلبہ ملتے ہی شہر کے شہر اجاڑ ڈالتے ہیں۔ کھوپڑیوں کے مینار بنا ڈالتے ہیں، کہیں انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہیں۔ جب کہ الحمد للہ اسلام کی خوبصورتی دیکھیےکہ دشمنی کی بھی حدود ہیں۔عورتوں اور بچوں کو نقصان نہ پہنچانا، حتی کہ پھل دار درخت تک کو ضائع کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ بے شک اسلام انسانیت کا مذہب ہے۔ جب کہ دوسری طرف ہمیشہ کی طرح اسی فلسفے کو پروان چڑھایا جاتا رہا ہے۔ اور آج تک اسی نکتے کو فالو کیا جا رہا ہے۔ ردعمل کے نتیجےمیں ایک مسلمان پر پہلہ حملہ بھی سال2001 میں ہوا تھا۔ اور حال ہی میں ہونے والا واقعہ بھی بظاہر اسی ذہنیت کا پرچار ہے۔ لیکن در اصل وہ اسلام فوبیا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ وہ اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم کافروں کے دلوں میں تمہاری دہشت ڈال دیں گے۔ مسلمانوں کی تمام تر غفلتوں کے باوجود، وہ سوئے ہوئے شیر کی بیداری سے ڈرتے ہیں۔ ان کے ہاں کتابیں لکھی جا چکی ہیں کہ 2050تک مغرب مر جائے گا۔ the deth of the west ان کے ہاں خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے۔ مستقبل میں انہیں اپنی آبادی کم اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ امریکی رائیٹر بین جے وائر برگ کے مطابق شرح پیدائش کا فقدان مشرق کو ہمارے اوپر غالب کر دے گا۔ خوف تو یہ ہے، اور اسی تکلیف کا اظہار وہ اپنے مختلف حربوں سے کرتے ہیں۔ انہی واقعات کے دوسری طرف جب سیاہ فام پادری اس سال حج پر آتا ہے اور خود کے ساتھ اپنے فالوورز کے اسلام لانے کا تزکرہ روتے ہوئے کرتا ہے۔ ویڈیو وائرل بھی ہو جاتی ہے۔ تو تصویر کا دوسرا رخ دکھائی دیتا ہے کہ اللہ کا نور تو مکمل ہو کر ہی رہے گا۔ ان شا اللہ
وقت ان پر واضح کرتا رہتا ہے کہ اسلام کو نیچا دکھانے کی ان کی ہر سازش ہمیشہ ناکام ہی رہی۔ اسلام اپنی آن بان شان کے ساتھ پھیلتا ہی جا رہا ہے اوراسی خوف و رنج کا اظہار وہ کبھی خاکے اور کبھی قرآن کی بے حرمتی کے واقعات سے کرتے ہیں۔ قران کو جلا کر انہوں نے اپنی نفسیاتی بیماری کا اعلان کیا ہے جس کا روحانی علاج تو یہ ہےکہ چونکہ قرآن خود اپنی حجت کے لیے کافی ہے تو ان کو قرآن ہی پڑھنے کے لیے پیش کیا جائے۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کی تائید کے ساتھ وہ ہدایت حاصل کریں۔
البتہ جسمانی علاج مذمت سے نہیں بلکہ مرمت سے ہو گا۔ سویڈن حکومتی سرپرستی میں جب اس طرح کی اشتعال انگیزی پھیلا سکتے ہیں تو ہمارے 57مسلمان ممالک کیوں نہیں ردعمل دکھا سکتے۔
سویڈن کے ساتھ تعلقات ختم کیے جائیں۔
ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور 57ممالک سے سویڈن سفارت خانے بند کیے جائیں تا کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ اُمت مسلمہ زندہ ہے اس طرح کے سیاسی اقدامات نہ کیے جائیں گے تو ایسے واقعات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔