ہر شخص اس بات سے آگاہ ہے کہ سویڈن میں عید الاضحیٰ کے پہلے دن مسجد کے سامنے حکومتی اور عدالتی سرپرستی میں قرآن کریم کو نذر آتش کر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ اس کے ردِ عمل میں دنیا بھر میں تمام مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ قرآن اور رسول کی حرمت ہمیں ہمیشہ اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے۔ یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ مسلمان چاہے کتنا ہی بے عمل کیوں نہ ہو وہ بے شک بہت نمازی نہ ہو یا دنیا داری کے مسائل میں پھنسا ہو پھر بھی وہ قرآن اور اپنے نبی کی شان میں ذرہ بھر بھی گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا جیسے بھی ممکن ہو وہ احتجاج ضرور کرتا ہے۔ اس کے لیے کچھ فیس بک یا پھر کسی اور سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں، تقریر یا تحریری شکل اختیار کرتے ہیں، اس ملک کا جھنڈا جلاتے ہیں، اس کے صدر اور وزیراعظم کا پتلا جلا کر، اس ملک کی ایمبیسی کے سامنے مظاہرہ کر کے یا جمعہ کے بعد بڑی شاہراہوں کو بند کر کے الغرض ہر حال میں اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرواتے ہیں۔ اس میں ہمارے حکمران بھی شامل ہیں وہ اپنی اسمبلیوں یا او آئی سی کے اجلاس میں مذمتی قرارداد پیش کر کے یا ٹی وی پروگرام میں شرکت کرکے اپنی جان چھڑوا لیتے ہیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضرور کرنا چاہوں گا کہ احتجاج عوام کیا کرتے ہیں جبکہ حکمران عملی اقدامات کرتے ہیں۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جیسی گستاخی کو روکنے کے لیے کس قسم کا احتجاج مؤثر ہوگا سب سے پہلے بات حکمرانوں کی چونکہ ان کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے پہلے ان ممالک میں اپنے نمائندہ وفود بھیجے جائیں جو غیر مسلم اقوام کو اسلام کا اصل چہرہ پیش کر سکیں اسلام کی، قرآن کی تعلیمات پیش کر سکیں.
اس کے علاوہ بیرون ممالک کے مذہبی اور سیاسی قائدین کو اسلامی ممالک میں دعوت دی جائے اور بین المذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے،اس کے علاوہ حکمران اپنا قبلہ درست کریں اسلام پہ عمل کریں تاکہ جب وہ ان ممالک کے نمائندہ لوگوں سے ملیں تو وہ متاثر ہو سکیں، خصوصا پاکستانی حکمرانوں سے درخواست ہے کہ ہر معاملے میں سعودیہ کی طرف مت دیکھیں ، تمام تر مسائل کے باوجود اللہ کے فضل سے پاکستان پوری دنیا میں ایک اہمیت کا حامل ملک ہے یہ یہ ایک ایٹمی قوت کا حامل ملک ہے اور اس کے پاس ایک مضبوط فوج ہے جو کہ ہر مشکل وقت میں اسلام کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، اس کے علاوہ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ خودداری کو اپنائیں کیونکہ بھکاریوں کی بات پر کوئی توجہ نہیں دیتا،مغرب جا کر اپنے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کرنے کی بجائے اسلام سے ان کو روشناس کروائیں،اس کے علاوہ عملی طور پر اگر سویڈن جیسی کوئی حرکت کرے تو ان سے سفارتی تعلقات معطل کر دیں
اب بات عوام کی، آپ فیس بک ، دیگر سوشل میڈیا یا کسی بھی سطح پر احتجاج ضرور ریکارڈ کروائیں لیکن اس میں اپنی شناخت اتنی رکھیں کہ دیکھنے والے کو پتہ چلے کہ یہ مسلمان ہیں اپنی تنظیمی، علاقائی، صوبائی شناخت کو ایک طرف رکھ دیں۔ علماء متحد ہو کر ایک جگہ پر مؤثر احتجاج کریں اس کے علاوہ سب سے پہلے ان ممالک کی تمام چیزوں کا بائیکاٹ کر دیں اب یہ کام گوگل نے خود بھی آسان کر دیا ہے اس کے علاوہ سب سے اہم کام جو ہم حرمت قرآن، رسول اور اسلام کے لیے کر سکتے ہیں وہ یہ کہ باعمل مسلمان بن جائیں اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں غیر مسلم رشک کریں کہ امتی ایسے ہیں تو نبی کیسا ہوگا یہ نہ ہو معاملہ اس کے برعکس ہو جائے اور ہوتا بھی ایسے ہے ہمارے عمل کی وجہ سے اسلام بدنام ہو جاتا ہے ہمارا دین تو ہے ہی سراپا امن اور محبت، آخر میں صرف یہ کہنا اتنے متحد اور با عمل بن جائیں کہ کسی غیر مسلمان کی اسلام کی گستاخی کی جرات ہی نہ ہو تو نہ ہی کسی احتجاج کی ضرورت پیش آئے.