آزادیء اظہار رائے کے نام پر قرآن پاک کی بے حرمتی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنا کر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا یورپی ممالک خاص طور پر ناروے، ڈنمارک، سویڈن اور فرانس کا وطیرہ بن چکا ہے۔ عید قربان کے دن حکومتی اجازت کے ساتھ مسجد کے باہر قرآن پاک کی آتشزدگی مسلمان دشمنی کا ایک اور ثبوت ہے۔
امریکہ میں 11 ستمبر کے واقعہ کی آڑ میں یہ لوگ مسلم دشمنی میں مزید بڑھ گئے ہیں اور مسمانوں کو ستانے کے نت نئے حربے اختیار کرتے ہیں۔ باحجاب خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات عوامی مقامات پر بڑھتے جا رہے ہیں۔ ملازمت کے مواقع محدود کیے جا رہے ہیں اور اسکولوں میں بھی بچوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ایسا کرنے والے پوری آبادی میں سے چند لوگ ہوتے ہیں مگر سرکاری سرپرستی میں یہ مکروہ عمل بارود میں چنگاری بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اور یہی وہ چاہتے ہیں۔
اس طرح کا رویہ کسی بھی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ روانہیں رکھا جاتا۔ دیگر مذاہب کے لوگوں کے مخصوص لباس، عبادت گاہوں یا عبادات کی ادائیگی پر کوئی قدغن نہیں مگر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
میری دانست میں سب واقعات کے پیچھے ایک سازش ہے۔ 11 ستمبر کے واقعات کے بعد اسلام کے ساتھ نفرت اور محبت دونوں میں اضافہ ہوا۔ لا دین اور دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اس کی حقانیت کے قائل ہو کر مسلمان ہونے لگے اور اس طرح اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا۔
مسلم تارکین وطن جو یورپ اور امریکہ میں آباد ہیں ان کی آبادی غیر مسلم یا ملحدین کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فرانس میں 10 فیصد سویڈن میں 8 فیصد، ناروے میں 3۔4 فیصد برطانیہ میں 6.8 فیصد ہے جو کہ عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے جبکہ ملحدین کی تعداد دونوں مذاہب سے زیادہ ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق آنے والے سالوں میں مسلم آبادی عیسائی آبادی پر غالب آجائے گی۔
اس تناظر میں مسلمانوں کی آباد کاری روکنے اور موجود مسلمانوں کو اپنے ملکوں سے بھگانے کے لیے یہ سازشیں کی جاتی ہیں۔ بے حرمتی کے کسی بھی واقعہ پر عالم اسلام میں احتجاج شروع ہوتا ہے۔ اور ان دشمنوں کی کوشش ہوتی ہے احتجاج میں شدت پسندی کا عنصر شامل ہو جائے تاکہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیکر جیلوں میں بند کر دیا جائے یا ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے۔
دوسرا مسلم اقلیت کو اس طرح اذیت دی جائے کہ وہ اپنا تشخص کھو کر ان کے رنگ میں رنگ جائیں۔ صرف انہیں لوگوں کو ملازمت اور تعلیم کے موقع دیے جائیں جو ان کے ملکوں میں انہی کی طرح رہیں۔
دراصل یہ بھی انسانی نفسیات کا ایک پہلو ہے۔ ایک عریاں لباس پہنے عورت کے ساتھ جب عبایا والی عورت کھڑی ہوتی ہے تو اول الذکر اپنے اندر شرمندہ ہوتی ہے اس شرمندگی کو مٹانے کے لیے وہ نقاب پوش کا نقاب نوچتی ہے کہ یہ بھی میرے جیسی دکھے۔ اسی طرح داڑھی والا مرد جو شراب نہیں پیتا، مخلوط محفلوں میں نہیں جاتا یا اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھتا ہے تو کھلے ڈلھے لوگوں کو اس کی پاکیزگی تکلیف دیتی ہے اور وہ اپنا رد عمل دیتے ہیں۔ وہ چاہتے یہ بھی ہمارے جیسا نظر ائے اور ہمارے جیسے کام کرے یا پھر یہاں موجود نہ ہو۔
اب سوچنا یہ ہے کہ کس طرح اسلام فوبیا ختم کیا جائے۔ مسلمانوں کے سر سے دہشت گرد ہونے کا الزام کیسے اتارا جائے اور ایسے واقعات کو ہونے سے روکا جائے۔
سب سے پہلے تو تمام اسلامی ممالک کو مل کر یورپ اور امریکہ کے سامنے اپناپرزور اور موثر احتجاج پیش کر کے ان واقعات کے خلاف قانون سازی کروانی چاہئے۔ کوئی ملک یا اس کا باشندہ نہ صرف مسلمان بلکہ کسی مذہب کے شعار، تعلیمات اور مقدس ہستیوں کی توہین نہ کرے۔
پیسہ کمانے کے لیے مسلم ملک چھوڑ کر دار الکفر میں ہجرت کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ جتنی بھی کوشش کر لی جائے ایک نسل تو اپنا ایمان سنبھال لیتی ہے مگر دوسری یا تیسری نسل کے ملحد ہونے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
جو مسلمان دوسرے ملکوں میں ہیں وہ اپنے اخلاق اور امن پسندی سے دوسروں کو متاثر کریں اپنے آپ کو اسلام کا سفیر سمجھیں اور ایسا کرنے میں اپنا کچھ مالی نقصان ہو بھی جاتا ہے تو ملت کے مفاد میں صبر کریں۔
ہمیں جذبات پر قابو رکھ کر حکمت کے ساتھ ان سازشوں کامقابلہ کرنا ہے۔ ہم سے مراد حکمران، علماء اور سب عام مسلمان۔
اللہ پاک ہم سے دین کی خدمت اور سر بلندی کا کام لے۔