جب ہم کچھ لکھنے بیٹھتے ہیں تو جو ہمارے ذہن میں ہوتا ہے وہ ہم لکھ مارتے ہیں یعنی لکھتے وقت ہم اپنے ذہن میں جھانکتے ہیں اور اپنی پسند اپنے موضوعات اپنے خیالات سے قاری کی تواضع کرتے ہیں۔ چاہے اسے پسند آ ئے یا نہ آ ئے۔ بلکل اس دعوت کی طرح کہ جس میں میزبان سارے کھانے اپنی پسند کے بنواتا ہے اور اسے اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ جو مہمان ہے جس کیلئے یہ دعوت سجائی گئی اسے یہ کھانا پسند آتا بھی ہے یا نہیں۔ تو نتیجہ بھی آپ جانتے ہیں کہ کیا نکلتا ہے۔ اسے کوئی رغبت ہی محسوس نہیں ہوتی اس کھانے میں اور وہ بہت جلد بیزار ہوکر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اگلی بار آ پکی دعوت قبول کرنے میں سو بار سوچتا ہے اسی پر قیاس کرلیں اس لکھاری کو کہ جو قاری کے دماغ میں جھانکنے کے بجائے اپنے دماغ میں جھانک کر لکھتا ہے چاہے قاری کی اس سے دلچسپی ہو یا نہ ہو ۔
انسان کی ایک فطرت ہے و ہ یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتا ہے بیزار ہوجاتا ہے بور ہوجاتا ہے۔ مثلا اگر میڈیا کا موضوع لیا جائے تو اس پر فورآً ذہن میں وہی تمام موضوعات آجاتے ہیں جو بہت عام ہیں اور جن پر بہت زیادہ لکھا جاچکا ہے۔ مثلآ میڈیا فحاشی پھیلارہا ہے، نو جوان نسل بگڑ رہی ہے، خاندان ٹوٹ رہے ہیں، طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے، معاشرتی اقدار بدل رہی ہیں، میڈیا نئی نسل کی ذہن سازی کر رہا ہے، میڈیا یہ میڈیا وہ غرض یہ موضوعات نہیں بلکہ فرد جرم ہیں جو ہم اسکا گریبان پکڑ پکڑ کے اس پر عائد کر رہے ہوتے ہیں۔ سر آ ئینہ پر فوکس ہوتا ہے پس آئینہ کیا ہے اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا ہم اس پر نہیں سوچتے کہ میڈیا ایسا کر رہا ہے تو کیوں؟ کیا وجہ ہے۔ اسکے پیچھے؟ کیا مقاصد ہیں؟ کیا ترجیحات ہیں ؟
دنیا بہت آ گے جاچکی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید چیزیں تخلیق کی جائیں، نئے موضوعات پر لکھا جائے، تقلیدی بیانیوں اور پیرایوں کی قید سے نکل کر آ زاد ذہن کے ساتھ لکھا جائے، دین کے اصول و محکمات کو توڑے بغیر نئی چیزیں سامنے لائی جائیں لکھنے سے پہلے اپنے دماغ میں نہیں دوسرے کے دماغ میں جھانکا جائے کہ ان کے ذہن میں کیا ہے۔ پھر اس کے مضمرات و نقصانات سے آ گاہ کیا جائے۔ تحریر کا ابتدائیہ چونکادینے والا ہو کہ قاری سرسری طور پر نہ گزر جائے، کوشش کی جائے کہ جہاں طوالت کی ضرورت نہ ہو مختصر اور جامع لکھا جائے، مقصدیت کو سامنے رکھا جائے واقعاتی اور عام فہم انداز میں اپنی بات ہہنچائی جائے۔
میڈیا اس صدی کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ اب قوموں کا بناؤ بگاڑ عروج و زوال میڈیا کے کنٹرول میں ہے۔ اور میڈیا ان کے کنٹرول میں ہے جو دنیا پر اپنی حکمرانی اپنی اجارہ داری چاہتے ہیں۔ تو اج اگر مسلمانوں نے اس جدید ٹیکنالوجی سے کماحقہ فائدہ نہ اٹھایا اور اسکے ذریعے مغربی تہذیب کے اثرات بد کا مقابلہ نہ کیا تو خاکم بہ دہن وہ دن دور نہیں جب کفر و الحاد نوجوان نسل کو گمراہی کے راستے پر بہت دور لیجا چکی ہوگی جس سے شاید واپسی ناممکن نہیں تو مشکل تر ہوجائیگی ۔
ہر زمانے کے معاشرے میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز رہی ہے جو اس دور کے معاشرے پر حاوی ہوتی تھی۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادو عام تھا تو وہی معاشرے پر چھایا ہوا تھا اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں علم وادب شعر و سخن زبان و بیان کی بڑی اہمیت تھی اور یہی چیز پورے معاشرے پر حاوی تھی اور جب قرآن اسی پیرائے میں نازل ہوا تو پورے معاشرے کو اس نے مسخر کرلیا ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آ ج تک ابلاغ کے نظام نے اپنی جادوئی صفت کے سبب معاشروں کو مسخر کیا۔یعنی تمام انبیاء کرام نے باطل سے مقابلے اور تجدید و احیائے دین کیلئے اللہ ہی سے ابلاغی صلاحیت (کمیونی کیشنل اسکل) مانگی۔ ہر دور میں بس اسکے انداز اور ٹولز بدلتے رہے۔ تو آج جدید ٹیکنالوجی کی صورت میں میڈیا علم وابلاغ کا وہ واحد ذریعہ ہے جو معاشرے پر چھایا ہوا ہے۔ اور اس جدید ذرائع ابلاغ سے فائدہ اٹھانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ کیونکہ اب ہر طرح کی جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ میڈیا کے ذریعے لڑی جائینگی۔ اور پھر اس منظر نامے میں وہ دیا باقی رہ جائیگا جس دیے میں جان ہوگی۔