اہل کراچی کو مبارک

15 جون کا سورج۔۔۔۔ تمام تردھوکہ دہی۔۔۔دھونس دھاندلی۔۔۔ اپنے اختیارات کا غلط استعمال۔۔۔۔ مخالف سیاسی نمائندوں کا اغواء۔۔۔ گرفتاریاں۔۔۔ لالچ۔۔۔ غرض تمام تر بدعنوانیوں کو جنم دے کر سیاسی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کر گیا۔

تقریباً سال بھر پر محیط۔۔۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات۔۔۔ بدترین اتار چڑھاؤ کے بعد اپنے انجام کو پہنچے۔۔۔ جہاں قدم قدم پر جمہوری طریقوں کو پامال کیا گیا۔ اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں۔۔۔ ووٹروں کی خریدوفروخت۔۔۔ بذریعہ طاقت و لالچ وفاداریاں بدلوائیں گئیں۔لاکھوں نہیں کروڑوں کا لین دین کیا گیا۔

یہ سب کچھ اس شہر میں ہوا جہاں ہزاروں لوگ نالوں پر سوتے ہیں۔۔۔ غربت و بیماری کے دکھ جھیلتے ہیں۔۔۔ جہاں صاف پانی اور بجلی سے لیکر دال روٹی بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگئی۔۔۔ مستقبل کی معمار نوجوان نسل۔۔۔ ڈگریاں لیے مایوسی کا شکار۔۔۔وطن چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس ملک کو لوٹ کر کھانے والوں کو بھی پیٹ بھر کے روٹی نصیب نہیں وہ چاول اور چند لقمے سبزی کے بمشکل حلق سے  نیچے اتارتے ہیں۔بے شمار بیماریاں ان کے گلے کا طوق بن گئی ہیں وہ چاہیں بھی تو نہ سکون سے سو سکتے ہیں نہ مزے لیکر کچھ کھا سکتے ہیں مگر انکی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ صحیح کہا گیا ہےکہ”انکا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی”۔۔۔ اس کی تازہ مثال اس بل کی سینیٹ میں منظوری ہے جس کے مطابق سینیٹ کے چیئرمین سابقہ وموجودہ۔۔۔  نئے بننے والوں کے لئے ۔۔۔تاحیات جن مراعات کا اعلان کیا گیا ہے وہ طلسمِ ہوش ربا ہے ناقابلِ فہم۔۔۔ نہ معلوم یہ لوگ کس مٹی سے بنے ہیں؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کرپشن میں ملوث حکمرانوں وسیاست دانوں نے ہمیشہ جمہوریت کو اپنے پاؤں تلے روندا ہے۔

لگ بھگ ایک سال کا عرصہ بیتنے کو ہے کراچی کے بلدیاتی الیکشن مکمل ہوتے ہوئے بھی حلقہ بندیوں میں ایسی غیر شفافیت دیکھنے میں آئیں کہ کہیں ایک یوسی پندرہ سے بیس ہزار آبادی  پر بنائی گئی اور کہیں ستر سے اسّی ہزار والی آبادی کو پوری ایک یوسی بنادیا گیا۔ تمام تر الیکشن کے دوران بے انتہا دھاندلی دیکھنے میں آئی۔میڈیا اور سوشل میڈیا شور مچاتے رہے مگر کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ جس کی لاٹھی اسکی بھینس؟؟

اور بالآخر۔۔۔ پندرہ جون کو خودساختہ میئر اور ڈپٹی میئر کے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق۔۔۔ کراچی آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں شو آف  ہینڈز کے ذریعے۔۔۔ مئیر اور ڈپٹی مئیر کا انتخاب رکھا گیا۔

آرٹس کونسل کے اطراف ڈنڈا بردار پولیس او رینجرز کی بڑی تعداد موجود تھی۔ صبح ساڑھے سات بجے گھروں سے نکلے دس بجے کے قریب ایک شناختی پیریڈ سے گزر کر آڈیٹوریم میں پہنچے وسیع وعریض آڈیٹوریم کے اسٹیج پر سامنے۔۔۔ الیکشن کمیشن نظر عباس ریجنل الیکشن کمیشنر کراچی بیٹھے تھے اور ان کے دائیں بائیں جانب دو پولنگ بوتھ تھے۔ وقفے  وقفے سے نعرہ بازی جاری تھی۔ اندر کسی پرائیوٹ چینل کو نہیں آنے دیا صرف پی ٹی وی موجود تھا۔ اسی اثناء میں محترم حافظ نعیم الرحمان اندر تشریف لائے اور حال نعرہِ تکبیر سے گونج اٹھا۔۔۔ گیارہ بجے آڈیٹوریم کے دروازے بند کردئیے گئے۔۔۔۔ تلاوت کے بعد باقاعدہ کاروائی کا آغاز ہوا۔ شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹوں کو گنا گیا۔ پھر ووٹوں کو کنفرم کرنے کے لیےاسٹیج پر بنے پولنگ بوتھ پر قطار میں لگ کر شناختی کارڈ دیکھا کر ووٹر لسٹ پر اپنے نام کے آگے مہر لگائی۔ سیدھے ہاتھ کے انگوٹے پر ان مٹ روشانائی لگائی جارہی تھی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے پولنگ ایجنٹ کے فرائض محترم قاضی صدرالدین نے بخوبی انجام دیے۔ یہ پورا مرحلہ دو دفعہ دوہرایا گیا پہلے میئر کا انتخاب اور دوسرے مرحلے پرڈپٹی میئر کا۔

انتخاب میں تقریباً 350 ممبران موجود تھے، جماعت اسلامی کی طرف سے مئیر کے لیےمحترم حافظ نعیم الرحمان اور ڈپٹی میئر کے لیے محترم سیف الدین ایڈوکیٹ تھے۔ ہم لوگ چھ گھنٹے تقریباً اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ ہمارے ساتھ پی ٹی آئی کی سٹی  کونسلرز موجود تھیں جن سے گپ شپ جاری تھی۔

پی ٹی آئی کے اور جماعتِ اسلامی کے تمام  ممبران موجود رہے اور بار بار نعرے لگاتے رہے کہ 32 ارکان ڈیفنس کے بنگلوں سے آزاد کروہماری گنتی پوری کرو۔ پی ٹی آئی کی خواتین بھی اپنے لوگوں کی غیر موجودگی پر بہت برہم تھیں اور جماعت اسلامی کی بھرپور حمایت کررہی تھیں۔

میں اپنی سیٹ پر بیٹھی۔۔۔ غور و فکر میں گم تھی۔۔۔ ماضی کے مختلف دور نظروں میں گھوم رہے تھے۔۔۔ حال کی چوکھٹ  پر کھڑی!۔۔۔ کہ مستقبل کے لیےکیا لائحہ عمل ہو ؟ کیا پلاننگ ہو؟۔۔۔ سوچ و بچار کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔۔۔  زبان مسلسل ذکر کرہی تھی۔۔۔آنکھوں کا نمکین پانی۔۔۔ آڈیٹوریم کے مناظر کو دھندلا کررہا تھا۔ باہر کیا ہورہا ہے۔۔۔ سب کا اندازہ تھا۔ اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان کا خواب آنکھوں میں لیے ریاستی دہشتگردی کا شکار  کارکنان پر پتھروں اور ڈنڈوں کی بارش تھی۔

آرٹس کونسلز کے آڈیٹوریم کی سرخ کرسی پر بیٹھے چھ گھنٹے کب بیت گئے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ واقعی غور و فکر اور اردگرد کے لوگوں کے رویوں کا مشاہدہ خود ایک کتاب  ہے۔۔۔

محترم مولانا مودودیؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ سفر میں کونسی کتب پڑھتے ہیں تو مولانا نے فرمایا۔۔۔ میں کائنات کامطالعہ کرتا ہوں۔

اس سارے منظر نامے پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس بلدیاتی الیکشن میں جماعتِ اسلامی نے بہت کچھ حاصل کیا۔ جماعت کی دعوت بہت تیزی سے گھر گھر پہنچ گئی ہے۔۔۔ لوگوں کی اکثریت گھروں سے نکلی اور جماعت کو ووٹ ڈالا۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔۔۔ کہ وہ حسبِ روایت جماعت یا نعیم الرحمان صاحب کو بائی پاس کرتے یا اگنور کرتے یا ان کے بغیر کوئی کامیاب شو اَن ائیر جاتا۔ سوشل میڈیا پر سیکڑوں لوگوں کی رائے جماعت اسلامی کے حق میں بنی ہے۔

دوسری جانب عالمی سطح پر بھی ہم دیکھیں۔۔۔ تو لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ پوری دنیا میں نمایاں نام یا کام کرتا لیڈر منظرنامے سے غائب ہے۔ حتی کہ امریکہ  میں تو قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ امریکی صدر بائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ۔۔۔ دونوں کی عمریں اسّی پلس میں ہیں بائیڈن تو تین دفع اسٹیج پر منہ کے بل گر چکے ہیں۔ اس کے باوجود  ٹرمپ اوربائیڈن دوبارہ الیکشن کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ جبکہ امریکی عوام کے سامنے بھی کوئی نمایاں لیڈر موجود نہیں۔

عالمی سطح پر لیڈرشپ کے اسی خلاء کو جماعتِ اسلامی نے پر کیا۔ کراچی کو ہی نہیں پاکستان کو ایک بردبار باوقار۔۔۔ نوجوان قائد حافظ انجینئر نعیم الرحمان کی صورت ملا ہے۔

بغیر کسی اختیار کے۔۔۔۔ کراچی کے شہریوں کی آواز بن کر بےشمار مسائل حل کئے ہیں۔ ہر ہر مشکل گھڑی میں جماعتِ اسلامی کے بے لوث، جاں نثار  کارکنان کے ساتھ۔۔۔تہذیب و شائستگی۔۔۔ دینیاقدار کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے۔۔۔ ایمانی طاقت و قوت کے ساتھ “میدانِ عمل ” موجود ہیں۔

اہلِ کراچی کو یہ قائد و رہنما مبارک ہو۔۔۔ تپتی دھوپ میں شجرِسایہ دار مبارک ہو۔۔۔