ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
دیدہ ور شخصیت منور حسن گوکہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہے مگر ہمارے دل کی دھڑکنوں میں موجود ہے۔ ان کی شخصیت کے کئی نمایاں پہلو ہیں جو ان کے نام کی طرح منور و تاباں ہیں۔ جناب منور حسن صاحب بذات خود ایک تحریک تھےوہ ساری زندگی غار حرا کے پیغام کی تبلیغ کے لیے متحرک رہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر سید منور حسن ایک مدبر اور نظریاتی سیاستدان، صاحب بصیرت اور جرآت مند قائد ایک مربی ایک مفکر ایک باعمل اور باکردار انسان، واضح اور دوٹوک موقف کے مالک، جو حق گوئی اور بے باکی کی زندگی مثال تھے۔
میں انقلاب پسندوں کی ایک قبیل سے ہوں
جو حق پر ڈٹ گیا اس لشکر قلیل سے ہوں
میں یوں ہی دست و گریباں نہیں زمانے سے
میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں
وہ ایک عالمگیر سوچ کے حامل انسان تھے کیونکہ وہ اسلامی تحریک کو کسی بستی، علاقے یا ملک تک محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے پوری زندگی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں گزاری ہمیشہ کہا کرتےانفرادی جدوجہد غیر مؤثر ثابت ہوتی ہے اسی لیے اجتماعی اور انقلابی جدوجہد کے داعی تھے۔ مطالعہ پر بہت زور دیتے تھے، کارکنان سے فرماتے” لٹریچر کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اس کا بدل بھی لٹریچر ہی ہے” مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کے بارے میں ان کا مشورہ تھا کہ جس نے کتاب ایک دفعہ پڑھ لی وہ دوبارہ پڑھے جس نے دو بار پڑھ لی وہ سہ بار پڑھے اور پڑھتا ہی جائے اور خود اپنے مطالعے کے بارے میں بتاتے کہ میں نے ایک ایک کتابچہ پینتیس پینتیس بار پڑھاہےسیدی کی یہ بات ہمارے لیئے بہترین مثال ہے۔
لٹریچر کواس طرح اپنے اندر جذب کر کے ہی نظاموں کی اس کشمکش میں منور صاحب نے دیوانہ وار کام کیا اور کبھی بھی نظام سےسمجھوتہ نہیں کیا اور باطل قوتوں سے پوری استقامت کے ساتھ نبردآزما رہے۔ ایوب خان کے دور میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایک جلسہ ترتیب دیا گیا۔ اس جلسے میں محترمہ کی حمایت میں ڈٹ کر حق بات کہنا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والا باہمت مجاہد کوئی اور نہیں منور حسن ہی تھے۔
صبح منور شام منورروشن تیرا نام منوراسی طرح ایم کیو ایم کے دور میں کسی نے مشورہ دیا “سید صاحب اکیلے مسجد نہ جایا کیجئے۔ جواب ملا کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں میرا رب میرے ساتھ ہو تا ہے “سید منور حسن ایک عہد کا نام ہے وہ ایک تحریک تھے ایک تاریخ تھے اپنی ذات میں انجمن تھے۔ “اک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا”۔
وہ ہمارے درمیان ایک سعادت والی نیکی اور تقویٰ کی زندگی گزار گئے۔ عزیمت کی راہ کو اپنا کر ایثار وقربانی اور استقامت کا پیکر۔ بچوں کی شادی کے تحائف بیت المال جماعت اسلامی میں جمع کروانے والا اللہ کا ولی۔ اسلامی انقلاب کے راستے کا وہ مسافر حسنات کا سرمایہ لےکر اللہ کے حضور پیش ہوگیا، 26جون 2020 کا وہ دن جب عالم اسلام ایک عظیم مدبر سے محروم ہو گیا.
ستارہ ٹوٹتا دیکھا ہےآسماں سے کبھی
یہ تیرہ شب کا مسافر سحر کا خواب لیے
لکیر دور تلک نور کی بناتا ہے
نظر سے ہوتا ہے اوجھل فنا نہیں ہوتا۔