تم جو ہو حسن کے پیکر ہو بنانے والے نے تمہیں بڑی شان سے بنایا ہے۔ بناتے وقت اُس کے ذہن کی سوچ کو داد دینے کو جی چاہتا ہے تمہیں کیا بتاؤں تم میری جان من ہو تمہاری وجہ سے میں اس گھر میں ہو میں تمہیں یہ باور کرادو اپنی اہمیت کو ہمیشہ خاص رکھنا۔
اسفندیار ولی خان روز اپنے مالک کی گاڑی کے پاس آکر اُس سے اپنی محبت اظہار کرتا رہتا اور پھر صابن کا پانی صفائی والا کپڑا لاکر چمکانے کھڑا ہوجاتا اور ساتھ میں کہتا جاتا ولی کی جان تمہیں ہم ایک دن اپنی زندگی بناکر رہے گے ہم اتنا محنت کرے گا کہ تم کو خرید لے گا۔ میں قربان ولی کی جان۔
ایک روز شام کو مالک وزیر خان اپنی مونچوں کو تاؤ دیتا ہو غصے کی حالت میں اسفندیار ولی کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ ولی خان یہ تم کیا اکیلے میں باتیں کرتے رہتے ہو ”لگتا ہے تم پر کسی جن کا سایہ ہوگیا ہے“۔ ارے نہیں صاحب جی بھلا مجھ غریب انسان کو تو کوئی انسان نظر بھر کربھی نہیں دیکھتا تو جن کیا مجھ پر سایہ ڈالنا ہے۔ آؤ صاحب جی بیٹھو گاڑی میں ابھی چمکایا ہے بالکل انجیلینا جولی لگ رہی ہے۔ یہ کیا تم کہہ رہے ہو ولی۔ نہیں نہیں صاحب جی کچھ بھی نہیں ہمارے منہ سے نکل گیا۔
ارے ولی خان پانچ سالوں سے کام کر رہے ہو اب تو تم اپنی مادری زبان پر غوروفکر کرنا شروع کرو۔ کرے گا ہم صاحب جی ابھی تم چلو ہمارے ساتھ۔ اسفندر ولی کتنا برس کے ہوگئے ہو تم کو، صاحب جی چالیس سال۔ اچھا کیا پھر شادی کی؟ نہیں صاحب جی میری گل بانو کے بعد ہم دوبارہ شادی نہیں کی۔ گل بانو میری محبت تھی اُس کے ساتھ بے وفائی کو ہم گناہ سمجھتا ہے۔ چلو ٹھیک جیسا تمہاری مرضی۔ اچھا آج ہم کراچی جائینگے تم تیار ہو اتنا لمبا سفر طے کرلوگے؟ ارے صاحب جی ہم اپنی جانِ من کے ساتھ ساری زندگی سفر طے کرسکتا ہوں۔
مالک کو اُس کی باتیں کچھ معیوب لگیں اور غصے میں کہنے لگا۔ کیا ہوگیا تم کو تم مجھے جان من کیوں کہہ رہے ہو تم سے ذرا تمیز سے بات کرلی تم یہ ہی بھول گئے کہ میں تمھارا مالک ہوں اور تم میرے نوکر۔ نہیں صاحب جی نہیں ہم نے آپ کو نہیں بولا کچھ۔ تو پھر میرے اور تمہارے سوا دوسرا کوئی بھی نہیں یہاں پر۔ صاحب جی ایک بار معاف کردو بس نوکری سے مت نکلنا میرے چھوٹے بچے ہیں۔ ہیں ہیں یہ کیا تم تو شادی شدہ نہیں بچے کہاں سے آگئے۔ ارے صاحب جی ڈراموں میں دیکھا ہے مالک سے اسطرح معافی مانگو تو مالک فوراً ترس کھالیتے ہیں۔ وزیر خان ہنسنے لگا اوربولا چلو ٹھیک ہے معاف کردیتا ہوں مگر آئندہ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اوکے صاحب جی ٹھیک ہے.
چند دن بعد اسفندیار ولی بہت پریشان تھا، باہر جاتا اور پھر اندر آتا عجیب سی حالت پسینے میں بھرا ہوا صبح سے شام ہوگئی مگر بےچینی کی کفیت جیسے ولی خان پر تاری ہوگئی ہو۔ اتنے میں شام کے سات بج گئے مالک کے اوپر نگاہ گئی۔ مالک، مالک کہاں گئی، کہاں گئی۔ مالک نے غصہ کرتے ہوا کہا کون کہاں گئی تمہاری بھابھی میکے گئی ہے بچوں کے ساتھ۔، مالک میں بیگم صاحبہ کی نہیں آپ کی گاڑی کی بات کر رہا ہوں وہ وہ تو میرے دوست کو پسند آگئی تھی میں نے اُسے گفٹ کردی۔ کیوں کیا ہوا تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟ مالک یہ کیا کیا ہم کو بیچ دیتا۔ تم تم کیسے خریدتے۔ تو صاحب ہم کو بھی گفٹ کردیتا مالک آپ اپنی حد میں رہو تم ولی تم بھول جاتے ہو کس سے بات کرنی ہے اور کیا کرنی ہے۔
اسفندیار ولی خان روتا ہوا چلا گیا سونے کے لیے اپنے حجرے میں۔ اگلے دن جب گارڈ سے کہا کہ جاؤ ولی کو بلا کر لاؤ ۔ تو ولی خان کہیں نا ملا۔ ولی خان جاچکا تھا اپنے خوابوں لیکر اپنی جان من کی تلاش میں معلوم نہیں پھر وہ ”گاڑی“ اُسے ملی یا نہیں مگر ولی خان دوبارہ نظر نہیں آیا۔