سنت ابراہیمی پرعمل کرتے ہوئے ہر سال مسلمان اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں جو آج سے تقریبا پانچ ہزار سال پہلے پیش آیا تھا۔ ایک بوڑھے باپ نے اپنے نو عمر بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہا جو اس کے بڑھاپے کا سہارا تھا اور بڑی دعاؤں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ اس بزرگ ہستی کی گزشتہ زندگی کا جائزہ لیں تو اس کا ہر لمحہ خداسپرد گی اور راہ خدا میں قربانی سے عبارت تھا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خدائے واحد کو پہچان لیا تھا جبکہ ان کی قوم اور خاندان شرک میں مبتلا تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے آپ نے اپنے خاندان اور قوم کو توحید کی دعوت دی مگر ان کے باپ نے بھی ان کی دعوت قبول نہ کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم اور خاندان کو چھوڑ دینا گوارا کر لیا مگر خدائے واحد کی بندگی نہ چھوڑی جس پر وقت کے بادشاہ نمرود نے بطور سزا آپ کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیاتاکہ آئندہ کوئی بتوں کے خلاف بولنے کی جرات نہ کر سکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پائے استقامت میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی آپ نے دین الہی کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی نمرود نے انہیں آگ میں ڈال دیا جس پر رحمت الہی جوش میں آئی، حکم خداوندی سے آگ ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی بن گئی اور ان کا بال بھی بیکا نا ہوا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی خاطر وطن چھوڑ دیا اور دین الہی کی دعوت کے لیے ملک ملک گئے۔ بندگان خدا کو توحید کی دعوت دی اور اسی دعوت کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ 90 برس کی عمر میں اللہ تعالی نے انہیں اولاد نرینہ عطا کی اور اس کے ساتھ ہی حکم دیا کہ اپنی بیوی اور بچے کو لے کر عرب کے بےآب و گیاہ صحرا میں چھوڑ آئیں۔ یہاں بھی محبت الہی غالب آئی اورآپ نے بلا تردد حکم پر عمل کیا آپ نےاپنے لخت جگر کو اس کی ماں کے ساتھ صحرا میں اللہ کے بھروسے پر چھوڑ دیا اور قربانی و خود سپردگی کی روایت کو برقرار رکھا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنی والدہ کے ساتھ صحرا میں بے یار و مددگار نہ رہے اللہ نے ان کے وہاں رہنے کا پورا بندوبست کر دیا، یہاں تک کہ وہ جب چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے. حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب کے ذریعے حکم ہوا کہ اپنے کمسن بیٹے کو اللہ کی راہ میں ذبح کر دیں۔ یہ ایک کڑا امتحان تھا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت کی راہ میں حائل نہ ہو سکا، آپ نے اس کا ذکر اپنے بیٹے سے کیا تو وہ بھی اطاعت اور فرمانبرداری کا پیکر ثابت ہوئے اور قربانی کے لیے فورا تیار ہو گئے۔ اس وقت پھر رحمت الہی جوش میں آئی اوراللہ تعالی کی طرف سے آواز آئی کہ “اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔” (سورہ صافات)
عین قربانی کے وقت فرشتے نے اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک مینڈھا لا کر رکھ دیا اور اسماعیل علیہ السلام کو قربان ہونے سے بچا لیا۔
“اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں دے کر اس (نوعمر بچے) کو چھڑا لیا۔”(سورہ صافات)
یہ وہ عظیم قربانی تھی جس کی یاد میں فرزندان اسلام لاکھوں کی تعداد میں عید قربان پر جانور قربان کرتے ہیں مگر کیا اس کے پس منظر میں موجود اس جذبے اور قربانی کو بھی یاد رکھتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سینے میں موجزن تھا، یعنی اللہ کی کامل اطاعت اور پوری زندگی اس کی سپردگی میں بسر کرنے اور دعوت دین کا جذبہ۔ اس جذبہ، جوش اور ولولے نے ہی اس قربانی کو وہ عظیم مرتبہ دیا کہ خدائے باری تعالی نے اسے نہ صرف قبولیت بخشی بلکہ رہتی دنیا تک اپنے بندوں کو اسے جاری رکھنے کا حکم دیا۔
اسوہ ابراہیمی پر عمل کیے بغیر ہم چاہے کتنے ہی جانور قربان کیوں نہ کر لیں یہ ایک رسم سے بڑھ کر کچھ نہیں اصل مطلوب یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی اللہ کے حکم اور اس کی اطاعت میں بسر کرنے کا عزم اور عہد تازہ کرے۔ قرآن میں بھی ارشاد باری تعالی ہے کہ “میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں خدایا یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے۔ (سورہ انعام) یہ دعا اس عہد کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔
مادیت پرستی کےاس دور میں ہر شخص بہتر سے بہتر کی تلاش میں ہےاور اپنےمقصد زندگی کو فراموش کر بیٹھا ہے۔ دکھاوے اور نمائش جیسی برائیوں نے قربانی کو ایک رسم بنا دیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں صحیح اسلامی فکر اور عمل کو رائج کریں تاکہ فلاح و کامرانی ہمارا مقدر بن سکے۔