کفر کی قوت ستیزہ کار ہے اسلام سے
مغربی شائستگی بیزار ہے اسلام سے
پیوستگی ابلیس پیکار ہے اسلام سے
ملت بیضا تجھے گر پیار ہےاسلام سے
بازوئے ایمان سے نابود باطل کیجئے
مقصد ہستی ہے جو پھر ا س کو حاصل کیجیئے
شاعر اور ادیب کئی سالوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مظلومیت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن انکی صدائیں نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کر سکیں۔ اللہ تعالی اجر عظیم سے نوازے سینیٹر مشتاق احمد خاں صاحب کو انکی آواز نے پوری پاکستانی قوم کو جگا دیا۔ انہوں نے نہ صرف عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی عافیہ سے ملاقات کا انتظام کیا بلکہ وہاں گزرنے والے حالات کی پل پل کی خبر اہل پاکستان تک پہنچائی ۔
واہ کیا شان ہے میری بہن عافیہ صدیقی کی کہ کسی اور زندہ شخص کے حق کے لئے اتنا نہیں لکھا گیا ہوگا جتنا اُسکے لئے لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے۔ عافیہ کو انصاف دلانے کے لئے میرے وطن کے لکھاری پوری طرح مستعد ہو گئے ہیں۔ نہ صرف لکھاری بلکہ علماء و خطبا اسکی خوبیاں بیان کر رہے ہیں اور اسکی رہائی کے لئے کوشش کرنے کی اپیل کر رہے ہیں ۔ میں جھنگ کے ایک مشہور خطیب علامہ احتشام الہٰی ظہیر کو سن رہی تھی وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں سینٹر مشتاق خان صاحب پر کہ انھوں نے پاکستان کی بیٹی کی رہائی کے لئے کوشش شروع کی ہے۔ وہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی بیٹی ہے۔ اسکو ظلم سے نجات دلانا سب کی ذمہ داری ہے۔ بھیجو نا ایسے سو سینیٹر پاکستانی سینٹ میں، پھر دیکھنا پاکستان کیسے ترقی کرتا ہے۔
ماشاءاللہ ڈاکٹر عافیہ تو مسلم قوم کی قابل فخر بیٹی ہے کہ اس نے سنت بلالی زندہ کی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دین حق کے لئے کس قدر تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کی تھیں۔ پھر رب کعبہ نے کتنی بڑی شان عطا کی کہ فتح مکہ کے روز حضرت بلال نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دی۔ یہ وہی بلال تھے جنھیں مکہ کے گلی کوچوں میں تپتی ریٹ پر گھسیٹا گیا۔ جن نگاہوں نے انہیں حقیر جاتا تھا، وہ آج انھیں موذن رسول کے مرتبہ پر دیکھ رہی تھیں۔ ڈاکٹر عافیہ بھی حضرت بلال کی طرح کافروں کی قید میں ہے۔ ۲۰ سالوں میں کیا کیا ذہنی اور جسمانی اذیتیں اسے دی گئیں، سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ عورت ذات، کمزور و ناتواں، دیار غیر، اپنوں سےدور، جیل کی سلاخیں، ہتھکڑیاں، ناجائز الزامات اور خدا جانے کون کونسے مصائب اس نے برداشت کئے ہونگے؟ نہ کسی کو ملنے کی اجازت، نہ کسی کو دکھ سنانے کا اذن، تو پھر اس منصف اعلی سے ہم کیوں نہ امید رکھیں کہ عافیہ کو جنت میں ایسا بلند مرتبہ عطا ہوگا جو ہم میں سے کسی کے حصہ میں نہیں آئے گا۔
ڈاکٹر عافیہ کو اسلام سے محبت کی سزا مل رہی ہے، پاکستان سے وفاداری کی سزا مل رہی ہے۔ وہ اپنے وطن کو شہرت کی بلندیوں پر دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے دیس کے جوانوں میں اسلام کی حقیقی روح بیدار کرنا چاہتی تھی۔ ایک انگریز مورخ جس نے امریکہ میں دوران تعلیم ڈاکٹر عافیہ کی صلاحیت اور قابلیت کو جانچ لیا تھا اسکے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ خاتون جس ملک میں جائے گی وہاں کے نظام تعلیم میں مثبت تبدیلی لائے گی۔ مگر افسوس اہل وطن اسکی خوبیوں سے بےخبر رہے، جو آج بھی پوچھتے ہیں عافیہ کس جرم میں قید ہے۔ افسوس ہم نے ڈاکٹر عافیہ کی ہستی میں قیمتی ہیرا کھو دیا۔ عالم کفر کو کب گوارا تھا کہ اس ہیرے کی ضیا پاشیوں سے پاکستانی قوم مستفید ہو۔ انہوں نے منہ مانگی قیمت کے عوض غدار پاکستانی حکمرانوں سے یہ ہیرا خرید لیا۔ وہ اسکی روشنی سے منور ہونا چاہتے تھے۔ اپنی قوم کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔ لیکن عافیہ صدیقی نے انکی بات نہیں مانی۔ اس جرم کی پاداش میں اسے ۸۶ برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس طرح عافیہ صدیقی کو جسے والدین نے ڈھیروں پیسہ خرچ کر کے ڈاکٹر عافیہ صدیقی بنایا تھا، خطرناک مجرم قرار دے کر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ شومئی قسمت کہ وہ جو اپنی پوری قوم کی تقدیر بدلنا چاہتی تھی اپنے بچوں کی پرورش و تربیت سے بھی محروم ہو گئی۔
میرے عزیز ہم وطنو ! مجھے یہ بتاؤ اتنے بڑے نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی بےگناہی ثابت کرکے اسے امریکہ کی قید سے رہائی دلواتی، خواہ اس کام پر کتنا زیادہ سرمایہ خرچ ہو جاتا۔ لیکن حکمرانوں کو اپنے عیش و عشرت سے فرصت ملے تو بات ہے۔ البتہ اب عوام بیدار ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اب یہ مسئلہ عام ہو گیا ہے۔ روزانہ بے شمار ہاتھ اسکے حق میں دعا کے لئے اٹھتے ہیں۔ مجھے جب سے عافیہ صدیقی کے مسئلہ کا علم ہوا ہے، میں نے ہر نماز کے بعد اور ہر محفل کے اختتام پر اسکے لئے دعا کرنا فرض سمجھ لیا ہے۔ جھنگ سے میری ایک دوست بتا رہی تھی کہ میری بھابھی روزانہ دو نفل نماز حاجت پڑھ کر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے دعا کرتی ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت کاملہ سے امید ہے کہ ڈاکٹر عافیہ جلد اپنے وطن واپس لوٹیں گی کیونکہ وہ اب ہم سب کی دعاؤں کے حصار میں ہیں۔
دست بدعا ہوں اس جہاد اکبر میں تری سرفرازی کے لئے
جذبہ عشق نبی، نسبت صدیق کی پائیداری کے لئے
رضائے رب اور خوشنودیٔ مصطفٰے کی سند کی ادائیگی کے لئے
جنت عدن میں خاتون جنت کی ابدی ہمسائیگی کے لئے
(آمین)