سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر۔
بھاگتی دوڑتی اس دنیا میں ہم بھی اپنی سی کوشش کرتے ہیں عمر بھر محنت مشقت کرتے رشتوں کو مناتے سمبھالتے کبھی عروج تو کبھی زوال کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں مگر اس پوری زندگی میں کبھی یہ سوچ نہیں آتی کے یہ سامان زندگی مسلسل تو نہیں حقیقی رہائش اور زندگی تو سب سے نازک سانسوں کی ڈور ٹوٹنے سے شروع ہوگی۔
کبھی کبھی ہمیں آخرت کا خیال آ بھی جائے تو صدقہ و خیرات کر دیتے ہیں یا ایک دو نماز پڑھ لیتے ہیں اگر جمعہ پڑھ لیں اور خطبہ دل پر اثر کرجائے تو چند دن یاہفتہ بھر ہم اپنے نفس پر قابو کر لیتے ہیں گناہ ثواب میں فرق بھی کرلیتے ہیں۔ مگر پھر وہی روشن دنیا جگمگاتی خواہشات، حسین منظر اور بناؤٹی سکون قلب، سنہرے خواب یہ سب ہمیں پھر سے انہی گناہوں کی طرف راغب کرتے ہیں اور پھر ہم اپنی لگام نفس اور خواہشات کے سپرد کر کے اندھے کنوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ اتنا کمزور ہے ہمارا ایمان جو ہم لمحہ لمحہ بہک جاتے ہیں۔
اسی چمچماتی دنیا میں ہم اپنا مقصد زندگی بھول جاتے ہیں کہ آخر ہمیں دنیا میں بھیجا کیوں گیا ہے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے عقل و فہم عطا کیا ہے پیدائش سے لیکر موت تک کے تمام طریقہ کار سیکھائے اور بتائے گئے ہیں۔ تو کام بھی تو بڑا لیا جانا ہوگا اور پھر سوال بھی ہوگا اور سزا بھی سخت ہوگی۔ ہم چوپائے تو ہیں نہیں جو صرف کھائیں پئیں اور مر جائیں۔
کتنے ہی انبیا اکرام آئے اور اپنی اپنی امتوں کو زندگی گزارنے اور ایک اللہ کی عبادت کرنے کا صحیح طریقہ بتا گئے۔ مگر افسوس ان کے جانے کے بعد قوموں نے ایک خدا کا انکار کیا اور پھر بنائے ہوئے بتوں کو پوجنے لگے۔ پھر آپ ﷺ تمام امتوں کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے۔ اور ان کے بعد دین کو پھیلانا اور کفر کو مٹانے کی زمہ داری ہماری ہے۔
جب بھی ہم دین پر عمل کرنا شروع کرتے ہیں تو عملی عبادات تو کرتے ہیں مگر اللہ کے ہر حکم پر لبیک نہیں کہتے۔ مثال کے طور پر بچے کے لئے اسکول وین تو لگائی ہے مگر مدرسہ جانے یا دینی تعلیم کے لئے نہ تو وقت ہےنہ ہی وسائل سو بہانے بناتے ہیں۔ چھوٹی سی مثال یہ بھی لیں کہ بچے نے رات بھر جاگ کر دنیاوی پیپر کی تیاری کی اور آپ فجر میں اٹھے مگر بچے کو اس لئے نہیں جگایا کے وہ ابھی سویا ہے تھک گیاہوگا۔ جب کہ آخرت کے پیپر کی تیاری زیادہ ضروری تھی۔ وہ عظیم ہستیاں جنھیں صرف حکم آتا اور وہ تعمیل کرتے پھر چاہے بیوی بچے کو صحرا میں تنہا چھوڑنا ہو آگ میں کودنا ہو یا اپنے لخت جگر کو زبحہ کرنا ہو۔ بس اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا اور تکمیل کی۔
جی ہاں ! اللہ کے دوست ابراہیم خلیل اللہ جو صرف خواب کی تعبیر کرنے نکل کھڑے ہوئے سوال نہیں کیا۔ کہ میرے ربّ کیا؟ کیوں؟ کیسے؟ اللہ کی سنی اور ہر آزمائش پر پورے اترے اور پھر یونہی تو نہیں اللہ نے آپ کو خلیل اللہ کے لقب سے نوازہ “اللہ کا دوست” اتنا آسان تو نہیں اللہ کا دوست بننا۔ مگر مشکل بھی نہیں اللہ جسے چاہے چن لیتا ہے۔ جس دن ہم نے نفس، خواہشات اور دنیا کی چاہ کے بت توڑ دیئے اور اللہ کے حکم پر راضی رہے اپنے مقصد کی تلاش شروع کر دی اس دن ہم بھی منزل پا لیں گے۔ جس طرح ابراھیم علیہ اسلام بھی تو اُس وقت کے اعلی خاندان میں پیدا ہوئے بت بنانا اور فروخت کرنا پادری، پنڈت، گدی نشیں سب تو تھا چاہتے تو دنیا کے آرام و آسائش، کرسی اور تاج کو پسند کرتے اپنے لئے لیکن نہیں! انہیں تلاش تھی ایک اللہ کی، خدا کی جو نہ کسی ایک کا بلکہ پوری کائنات کا رب ہو جو نہ طلوع ہوتا ہو نہ غروب، جو دن ہو نہ رات ہو بلکہ ان سب کا مالک ہو۔ اور پھر آپ نے اللہ کو نہ صرف پہچانا بلکہ اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل گئے باپ نے عاق کردیا اپنی ہی قوم نے نکال دیا۔ پھر بھی شکایت نہیں کی کے اے اللہ میرے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں میں تو تیرا پیغام نہیں پھیلا سکتا یا میں اکیلے کیسے کروں یہ سب۔
نہیں کوئی سوال نہیں بلکہ پیغام الٰہی لوگوں تک پہچایا۔ پھر سفر یہیں تک نہیں تھا آزمائش پر آزمائش تھی۔ جن ایام کو ہم حرمت والا کہتے ہیں دن رات بکرا منڈی کے چکر لگاتے ہیں پھر کہیں جاکر قربانی کا جانور لیتے ہیں اور پھر شروع ہوتی ہے نمود نمائش زندہ سے لیکر پلیٹ میں آنے تک کی ہر تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جاتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ان تصاویر کے ساتھ کیپشن ہوتا ہے”سنت ابراھیمی” اللہ اکبر یہ نہیں ہے قربانی قربان تو آپ علیہ سلام اپنا بیٹا کرنے جا رہے تھے خالص اللہ کے لئے۔ آپ علیہ سلام کو پہلے سے علم تو نہیں تھا نہ ہی اللہ نے کہا کہ میرے دوست تم بیٹے کی گردن پر چھری رکھنا ہم آسمان سےدنبہ بھیج دیں گے نہیں۔
بلکہ آپ نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا اور اللہ کو یہ عمل اتنا پسند آیا کہ قیامت تک ہم اس سنت پر عمل کرتے رہیں گے اور ان دنوں روزے رکھ کر تکبیرات پڑھ کر اپنے گزشتہ سال اور آنے والے سال کے گناہ معاف کروا سکتے ہیں بس ہم یہ نہ سوچیں کہ قربانی یا حج ادا کر کے ہی ہم اس سنت میں شامل ہو سکتے ہیں اگر ہماری استطاعت ہے تو بلکل ایسا کریں اگر نہیں ہے تو اپنے رب کے حضور اپنا نیک عمل پیش کریں کوئی برائی ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں کوئی نیکی ہمیشہ کے لئے شروع کریں۔ اپنی ناجائز خواہشات کو قربان کریں اور ان ایام میں اپنی زبانوں کو تر رکھیں ان کلمات سے لبیک اللھم لبیک۔