رات کو پھر وہی خواب اپنی پوری جزئیات کے ساتھ آیا تھا۔ ذبح کرنے کی جگہ۔ باپ اوربیٹا۔ باپ کے ہاتھ میں چھری۔ بیٹے کا کٹتا ہوا گلا۔ ابلتا خون۔ خون آلود چھری۔ وہ کٹی ہوئی گردن کے ساتھ بیٹے کےچہرے کے نقوش۔ جنہیں ہزار بار چوما تھا۔ شک کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ یہ رب کا حکم تھا۔ رب کی مرضی تھی۔ بندے کی اطاعت مطلوب تھی۔ اولاد کی قربانی۔ کیسا کڑا امتحان تھا۔ وہ بہت دیر سے یونہی بیٹھے تھے۔ زوجہ نے پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب بھی کوئی نئی مہم آتی، وہ سوچ میں گم ہو جاتے۔ یہ سوچ فرار کی سوچ نہیں بلکہ کام کی بہترین پلاننگ کے لیے تھی، اس لیے بار بار کی مداخلت پسند نہ کرتے تھے۔
ابا جان۔ کیا ہوا۔؟ یوں کیوں بیٹھے ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام کو باپ کے چہرے پر تناؤ اور کشمکش صاف نظر آرہی تھی۔۔ ابراہیم خلیل اللہ ذرا چونکے۔ وہ خاموشی سے بیٹے کا چہرہ پڑھنے لگے۔ اگر لاعلمی میں اسے مار ڈالوں۔ تت۔ تو۔ بولیے ناں ابا جان۔ ہم منتظر ہیں۔ بیٹے کا رواں رواں سوالی تھا۔ لمحوں میں فیصلہ ہوا۔چلو اؤ باہر چلیں۔ زوجہ نے دونوں باپ بیٹے کو باہر جاتا دیکھ سکون کی سانس بھری اور اذکار کرنے لگیں۔ بیٹے۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ باپ کی اس تمہید نےاسماعیل علیہ السلام کو ٹھٹھکا دیا۔ بات یقیناً بہت بڑی تھی۔یہ رب کا حکم ہے۔ شیر خوار بچے کو بےآب وگیاہ وادی میں چھوڑنے والا اگر کسی تردد کا شکار تھا تو یقینًا کو بڑا کام ہی تھا۔
آپ کام بتایے ابا جان وہ چند ثانیے دیکھتے رہے۔ کیا اللہ کا حکم سننے کے بعد یہ کیا کریں گے۔ اسےبتانا ہی پڑے گا۔اس بار اللہ تعالیٰ نےتمہاری قربانی مانگی ہے۔ تم میرےپاس اللہ کی امانت ہو۔ اللہ جی آپ کو واپس مانگ رہے ہیں توکیسے انکار کروں۔ اسماعیل علیہ السلام کار نبوت کی نزاکتوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ بھری جوانی۔ بھری امنگیں۔ ختم ہونے والی تھیں۔ وہ لحظہ بھر کو رکے۔ مگر اس دنیا کا سب کچھ فانی ہے۔ ابا جان مجھے منظور ہے۔ آپ کو جوحکم ملا ہے۔ وہ سر آنکھوں پر۔ ابراہیم علیہ السلام نے جہاں اطمینان کاسانس بھرا وہیں ابلیسی کارندوں میں ہلچل مچ گئی۔ جو بندہ اللہ کی طرف لپکتا ہے، وہ ان سے براشت نہیں ہوتااور اسے روکنے کے لیےایڑی چوٹی کازور لگاتےہیں۔
دونوں باپ بیٹا اپنے سازوسامان کے ساتھ جانے کو تیار تھے۔ زوجہ کو صرف یہ پتہ تھا کہ دونوں باپ بیٹا کسی دعوت میں گئے ہیں۔ وہ دعوت کہاں تھی اور کس کے ہاں تھی۔ معلوم نا تھا۔ وہ گھر کے کاموں میں مگن تھیں۔ اس علاقے کا دستور یہ تھا کہ قر بانی اونچی جگہ کی جاتی تھی۔ دونوں باپ بیٹا اپنے اپنے آنسو ایک دوسرے سے چھپائےباتیں کررہے تھے۔ ایک دوسرےکا سہارا بنے ہوئے تھے۔
دھیمے، مضبوط قدم اور استقلال سے بڑھ رہے تھےکہ ان دونوں کوایک بوڑھاملا جو ان دونوں کو روک رہا تھا۔ دونوں رک گئے۔ کچھ جانتے بھی ہو کیا کرنےجا رہے ہو۔ یہ تمہاری اولاد ہے۔ کیسے زندہ رہو گے اس کے بغیر۔ بیٹا تو بھاگ جا۔ اپنی زندگی جی۔ تیری زندگی تومرضی بھی تیری، ارے تو ہے کون۔ ہمیں کیسے جانتا ہے۔ اور یہ بکواس کیوں کر رہاہے۔ راستے سے ہٹ۔ یہ اللہ کا حکم ہے اور اسکی خوش نودی چاہیئے، راستے سے ہٹ جا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام غضب ناک ہو گئے۔ وہ شیطان تھا اور ان دونوں کو اللہ کی بغاوت پر آمادہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی شیطانی طاقتوں کے استعمال سےروکنا چاہتا تھا۔ اللہ کی طرف سے فوراً کمک پہنچی۔ ایک فرشتے نےعملی مظاہرہ کر کے بتایا کہ بسم اللہ اللہ اکبر کہ کر شیطان کو کس کر پتھر مارا جائے۔ فرشتے نے اللہ کی مدد سے اس پتھر کی طاقت میں اضافہ کر دیا۔ سات پتھر پڑے تو اس کی طاقت کم ہوئی۔ اس جگہ کو جمرةالاولیٰ کہتے ہیں۔ وہ لبیک اللٰھم لبیک پڑ ھتے ہوئے آگے بڑھنے لگےتو تھوڑی دیر کے بعد پھر رکنا پڑا۔ شیطان پھر معصیت کے راستے کی دعوت دینے کے لیے مستعد تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
ابا جان جب آپ مجھے ذبح کے لیے لٹایں گے تو الٹا لٹانا تا کہ چھری دیکھ کر میں کچھ کر نہ بیٹھوں۔ ارے ظالم۔ دہائی ہے دہائی۔ شیطان اطاعت کا ایسا روپ دیکھ کر بے چین ہوگیا۔ یہاں دوسری بار شیطان کو پتھر پڑے۔ جوں جوں منزل قریب آ رہی تھی توں توں شیطانی اثر بڑھ رہا تھا۔ اللہ کی رحمت بھی بندے پر چھا تھی۔ تیسری بار شیطان پتھر کھانے کے بعد مایوس ہو گیا۔ وہ مسلسل پڑھ رہے تھے۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ یہی دعا اللہ نے اپنی لازوال کتاب میں اپنی امت کو سمجھا ہے۔
بیٹی کیا تم جانتی ہوکہ تمہارا شوہر اور بیٹا کہاں گئے ہیں، اماں کویہ سوال بہت عجیب لگا۔ یہ ہوتا کون تھاپوچھنے والا ۔بابا جی۔ میں ان سے نہیں پوچھتی۔ وہ اللہ کے کام سے گئے ہیں۔ آپ کھانا اورپانی پیئں اور اپنا راستہ ناپیں، شیطان حضرت ابراہیم کے گھر میں جو نقب لگانے آیا تھا۔ اس میں وہ بری طرح نا کام ہوا تھا۔
اباجان۔ یہ پٹی باندھ لیں اورمیں بھی یہ پٹی باندھے لیتا ہوں۔ ان شاءاللہ ہم جنت میں ملیں گے۔ میرے لیے دعا کیجیے۔ ان کو یہ مناسب ترین لگا۔ انہوں نے تکبیر پڑھی اوربیٹے کو الٹا لٹاکر چھری چلا دی۔ جب پٹی اتاری تو سامنے بیٹے کی بجائےمینڈھا ذبح ہوا تھا۔ وہ کچھ حیران پریشان کھڑے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہی حالت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تھی۔ اللہ نے انہیں کام یابی کا مژدہ سنایا۔ اب امت میں رسم قربانی رہ ہے، روح قربانی نہیں رہی۔ اس روح کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلیے یہ قرآنی کہانی کو اپنے الفاظ میں پیش کیا ہے۔