رب العالمین نے مسلمانوں کو دو اہم تہوار عنایت کئے ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحیٰ۔ عیدالفطر کو روزوں کے انعام کی صورت میں نوازا جبکہ عید الاضحیٰ قربانی کی ایک عظیم الشان صورت ہے جو اللہ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا کی ہے۔
قربانی ایک عظیم عبادت ہے جو کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے چلی آرہی ہے ان کے بیٹوں ہابیل اور قابیل نے بھی قربانی کی تھی اس کے بعد تمام انبیاء علیہ السلام کی شریعت میں یہ کسی نہ کسی طور شامل رہی ہے.
احادیث مبارکہ میں قربانی کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،،، ایام قربانی (10 سے 12 ذوالحجہ) میں انسان کا کوئی بھی عمل اللہ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کے خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں. ایک اور جگہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،،،،جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے-
عید الاضحیٰ کو عید الکبیر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ نبی، حضرت ابرہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے زبح کر رہے ہیں چونکہ نبی کا خواب وحی الٰہی ہوتا ہے لہذا جب انہوں نے اپنا خواب اپنے بیٹے کو سنایا تو فرمانبردار بیٹے نے بلا چوں وچراں رب کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کر دیااور قربان ہونے کے لئے لیٹ گئے۔ اللہ کو تو اپنے بندے کی آزمائش مقصود تھی جس پر وہ پورے اترے لہذا اللہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک دنبہ بھیج دیا جس کو حضرت ابرہیم علیہ السلام نے ذبح کر دیا۔اللہ پاک کو دونوں باپ بیٹوں کی اطاعت الہی کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک قربانی کے اس عمل کو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں نافذ کر دیا۔
بدقسمتی سے آج ہم سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے قربانی تو کرتے ہیں مگر ان عظیم ہستیوں کی اطاعت و فرماں برداری کے سبق کو فراموش کر گئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ قربانی اب ایک فیسٹیول بن گئی ہے یہ اللہ کی رضا کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھاوے کے لیے کی جاتی ہے۔ اسٹیٹس کے مارے ہوئے لوگ پچاس لاکھ کی گائے اور پانچ لاکھ کے بکرے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں جبکہ اللہ سورہ حج میں فرماتا ہے،،،
لَمْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التقوى منکم،،، ترجمہ : اللہ کو ان جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون اسے تو صرف تمہارا تقوی پہنچتا ہے ہے ( سورہ حج ،37)
آج کل بعض حضرات کی جانب سے یہ تاویلات پیش کی جاتی ہیں کہ قربانی میں پیسے ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ کسی غریب کی شادی کرادیں، کسی یتیم بچے کی کفالت کر لیں، کسی بے گھر کو گھر بنا کے دے دیں، کنواں کھودوا دیں یا پھر ناداروں کو راشن دلادیں کیونکہ اسلام میں ضرورت مندوں کی ضرورت پورا کرنے کا بڑا ثواب ہے تو ان کے لیے عرض ہے کہ صدقہ و خیرات یا انفاق فی سبیل اللہ تو آپ سارا سال کر سکتے ہیں مگر قربانی اللہ کا حکم ہے جو ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے اس کی فضیلت و اہمیت سے انکار اللہ کے حکم کا انکار ہے ۔
سورہ الکوثر میں اللہ فرماتا ہے
فصل لربک والنحر
ترجمہ؛ پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو.
ہمیں قربانی کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالی دراصل ہمارے اندر وہ جذبہ بیدار کرنا چاہتا ہے کہ ہم اپنی جان، مال، اولاد، نفس، وقت اور طاقت سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں جیسا کہ سورۃ انعام میں ارشاد ربانی ہے،،،إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِي،،،سورۃ انعام (162) ترجمہ: بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے.
اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم بھی اپنا شمار ایسے لوگوں میں کروا سکیں جو خالصتاً رضائے الہی کے لئے قربانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح ہمہ وقت اطاعت الٰہی کے لئے سر تسلیم خم کیے رہتے ہیں ( آمین ).