ملاوٹ، دھوکہ دہی اور ناپ تول میں کمی جیسی برائیاں اور قباحتیں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ’’قوم مدین‘‘ میں پائی جاتی تھیں، انہی بری عادتوں کے باعث ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور پوری قوم تباہ و برباد ہو گئی۔ اس واقعے میں امت محمدیہ کے لئے ملاوٹ مافیا اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے عبرتناک انجام کا عندیہ ہے۔
آج شریعت میں ممانعت اور سخت عذاب کی وعید اور ملک میں قانون موجود ہونے کے باوجود جابجا ملاوٹ مافیا اور کم تولنے والوں کی بھر مار ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اچھے اعمال و افعال اور نیک نامی میں آگے ہونا چاہیے، مگر اس کے برعکس ہمارے معاشرے کاایک خاص طبقہ بددیانتی اور لوٹ مار میں آگے نظر آتا ہے۔ نا جائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی، اشیاء خورد و نوش میں ملاوٹ و مہنگائی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ اشیائے خورد و نوش میں سب سے سستا نمک ہے مگر صد افسوس کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیک شدہ نمک کی فروخت بڑھانے کے لئے عام خوردنی نمک میں بھی پتھر کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر، اینٹوں ولکڑی کا بورا، کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔
ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے ۔ اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم، شیمپو، میک اپ کے سامان میں مختلف بیماریوں کا باعث بننے والی اشیاء کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ کہیں گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے ذبیحہ کی شہ رگ میںپانی کا پریشر استعمال کیا جارہا ہے تو کہیں گدھے، گھوڑے، کتے اور مردار کا گوشت مدغم کر کے فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایسا گوشت عام طور باربی کیو اور ہوٹلوں پر پر مرغن او مصالحہ دار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مرغیوں کی چربی سے بنے ناقص گھی اور تیل میں بیسن کی بوندیاں اور بچوں کے کھانے کی چیزیںتلی جارہی ہیں۔ جبکہ ہماری نہروں میں شہر بھر کے گٹروں کا پانی ڈالا جارہا ہے جو کہ بعد ازاں نہروں سے کھیتوں میں جاتا ہے، اورپھر اسی گندے اور زہریلے پانی میں سبزیاں کاشت کی جارہی ہیں۔
اشیائے خورد و نوش کی اس گھمبیر صورتحال کے نتیجے میں بچوں کی نشوونماء متاثر ہورہی ہے، اور شہریوں بالخصوص بچوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں، اور ہر چوتھا پاکستانی منہ،جگرکے کینسر، ہیپا ٹائٹس، گردوں کے امراض، شوگر، بلڈپریشر، جلدی امراض اور معدے کے عارضوں میں مبتلاہے۔ ملک بھر میں سرکاری و نجی اسپتالوں پر مریضوں کا رش دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں کوئی خطرناک وبا پھوٹ پڑی ہے، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں کوئی مریض نہ ہو۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ مضر صحت اشیاء کے ہاتھوں بیمار ہونے کے بعد خالص دوائیں تک دستیاب نہیں ہوتیں، کیونکہ ادویات میں بھی ملاوٹ کی بھرمار ہے۔ بہت سے تاجر اور دکاندار گاہک کو بظاہر پوری چیز دیتے ہیں لیکن حقیقت میں مقدار سے خاصی کم ہوتی ہے۔
آہ! کس کس چیز کا ذکر کیا جائے غرضیکہ آج بہت سے انسان دونوں ہاتھوں سے ناجائز دولت سمیٹنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھا رہے ہیں جس کی منزل دنیا میں حصول زر اور آخرت میں جہنم کا ایندھن کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسان کی خودغرضی نے اسے اسقدر حریص بنا دیا ہے کہ وہ انسانیت کی تمام حدیں پار کرنے اور دوسروں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ حالانکہ ہر صوبے میںکنزیومر پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے، پنجاب میں بھی صارفین کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور غیرمعیاری اور ناقص اشیائے خور و نوش، مصنوعات اور پبلک سروسز کے متعلق شکایات کے ازالہ کے لیے کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005ء نافذالعمل ہے۔ تعزیرات پاکستان کے باب 14 میں بھی اس حوالے سے قانون موجود ہے اور پیور فوڈ آرڈیننس 1960ء میں بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں مگر طبیعت میں خباثت ہوتو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔
مردہ ضمیر لوگ چند پیسوں کے لالچ میں انسانی زندگیوں سے کھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں، ان کو خوف خداہے نہ فکر آخرت۔ کچھ عرصے سے پنجاب فوڈ اتھارٹی ملاوٹ مافیا کے خلاف اور اشیائے خورد و نوش کا معیار بہتر بنانے کے لئے حرکت میں آئی ہے جو کہ اس کھٹا ٹوپ اندھیرے میں چراغ کی مانند ہے۔بلاشبہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے جرمانوں کے بعد بیکریوں اور ہوٹلوں میں صحت و صفائی کا معیار کسی حد تک بہتر ہوا ہے لیکن ایسے غیر انسانی فعل پر ملاوٹ مافیا کو محض تھوڑا بہت جرمانہ یا عارضی طور پر ان کا کاروباربند کیا جاناکافی نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں اور اس سلسلے مذید سخت قانون بنا یاجائے تاکہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے ان بے ضمیروں کا قلع قمع ہوسکے۔ اگر بددیانتی کی سزا سزائے موت مقررکردی جائے اور ایسے غیر مذہبی اور غیر انسانی فعل پر محض چند افراد کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے تو بگڑے معاشرے کی صورتحال خود بخود ٹھیک ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعائت کے مستحق نہیں۔