ڈپریشن ایک ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان اپنے آپ کو بے بس اور کچھ بھی نہ کرنے کے قابل سمجھتا ہے۔ موضوع اتنا عام ہے کہ کسی وضاحت کی ضرورت نہیں یہ ایک انتہائی خطرناک مرض ہے جو نہ صرف آپ کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ آپ کے سونے جاگنے ، کھانے پینے یہاں تک کہ آپ کے سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں اس مرض سے صرف وہی بچا ہے جسے اللہ نے محفوظ رکھا ہے ۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ اس مرض کا شکار ہوتی ہیں
امریکی طبی ماہرین کے مطابق درج ذیل نشانیاں کم سے کم دو ہفتے تک برقرار رہیں تو ایسے شخص کو ڈپریشن کا مریض کہا جائے گا
دن کے اکثر حصوں میں خصوصا صبح کے وقت طبیعت کا بوجھل پن محسوس کرنا
ہر روز خود کو بے وقت اور قصوروار سمجھنا
تین سارا دن خود کو تھکاوٹ اور کمزوری کا شکار محسوس کرنا
کسی اہم کام پر غور کرنے، کچھ یاد کرنے اور فیصلہ کرنے میں مشکل محسوس کرنا
ہر وقت مرنے یا خودکشی کرنے کا سوچنا
بلاوجہ وزن کا کم یا بہت زیادہ ہو جانا
بہت زیادہ یا بہت ہی کم کھانا کھانا
ہر وقت چڑا پن
کسی بھی کام میں لطف اندوز نہ ہونا
اچانک تنہائی کا شکار ہو جانا
نیند کا بالکل نہ آنا یا بہت زیادہ آنا
یہ نشانیاں ویسے تو بہت عام ہے لیکن یہ سب میں یکساں ظاہر نہیں ہوتی ان کا دورانیہ شدت اور تکرار ہر مریض میں مختلف ہوتا ہے۔ ایک ضروری وضاحت کے کسی قریبی عزیز کی فوتگی، کاروبار میں نقصان ، پسندیدہ ماحول کی عدم دستیابی وغیرہ جیسی صورت حال کی وجہ سے ہونے والی عارضی اداسی کو ڈپریشن نہیں کہتے مگر یہ صورت حال ایک لمبے عرصے کے لئے برقرار رہے تو پھر ضرور ڈاکڑ سے رابطہ کرنا چاہیے ہمارے معاشرے میں ڈپریشن کو بلکل بھی سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ یہاں تک کہ عام لوگوں کو اس بات کی بھی آگاہی نہیں کہ ڈپریشن سے بہت سی بیماریاں جیسے جوڑوں کا درد، کمر کا درد، ہاضمہ جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اگر ان میں خودکشی کا رجحان بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے.
اب سب سے اہم کے ڈپریشن کیسے بچا جا سکتا ہے ہمیشہ کی طرح یہ سوال ہم کائنات کے سب سے عظیم شخص میرے اور آپ کے پیر و مرشد جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں آپ کے اسوہ حسنہ اور آپ کے اصحاب کے طریقے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈپریشن اور جیسے تمام ذہنی امراض کا حل ہے یہ
ہر وہ چیز جو ہمارے اختیار میں نہیں اس پر سوچنے سے ڈپریشن پیدا ہوتا ہے،
اللہ پر توکل کم ہونا اس کا ایک سبب ہے سر راہ بات یاد آئی ہمارے بہت عزیز دوست اور بھائی شاہد صاحب جوکہ سابقہ مدرس رہے ہیں سپیریئر کالج میں ملنے آئے اور توکل کے موضوع پر بہت خوبصورت سبق آموز واقعہ سنایا ۔ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ایک امیر شخص کے پاس ایک چوکیدار کام کرتا تھا یہ شخص ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ اس چوکیدار کے منہ سے کبھی شکوہ نہیں سنا ایک دن اس نے اس کی تنخواہ بڑھا دی لیکن چوکیدار میں کوئی رد عمل ظاہر ہوا۔ نہ وہ اس کا شکریہ ادا کرنے آیا ۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے اس کی تنخواہ کو کم کر دیا اب اس کا خیال تھا کہ اب تو وہ ضرور آئے گا لیکن اس کی سوچ کے برعکس چوکیدار پر کچھ اثر نہ ہوا اپنا کام پہلے کی طرح ایمانداری سے کرتا رہا۔ آخر کار اس نے اس کو بلایا وجہ پوچھی کیا تم انسان ہو یا فرشتے تم پہ کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا پہلے میں تمہاری تنخواہ بڑھا دی اور پھر کم کر دی ۔ چوکیدار نے بڑا کمال جواب دیا کہ سر یہ میرے رب کے فیصلے ہیں اور میں اس پر راضی ہوں جب تنخواہ بڑی تو میرا بیٹا پیدا ہوا میں خوش تھا کہ وہ اپنا نصیب لایا ہے اور جب کم ہوئی تو میرے والد کا انتقال ہوا مجھے لگا کہ وہ اپنا نصیب بھی ساتھ لے گئے ہیں اس واقعہ سے آپ کیا سھیکتے ہیں یہ میں آپ پر چھوڑ ہوں لیکن ڈپریشن کے حل کے لے توکل مضبوط ہونا لازمی ہے.
ڈپریشن سے بچنے کے لیے کام زیادہ کریں اور سوچیں کم نتائج اللہ پر چھوڑ دیں، اس کا علاج یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی سے دعا کریں کہ اللہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو اس سے محفوظ رکھے ہماری سوچ کو مثبت کر دیں.
شکر کریں عملی طور پر شکر کریں جو چیزیں آپ کے پاس موجود ہیں ان کا شکر کریں اور جو نہیں ہے اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں حاصل اور لا حاصل میں اپنی توجہ کو حاصل کی طرف مرکوز رکھے جیسے کہ ہماری صحت، ہماری اولاد، ہمارے والدین کا ہونا. اگر آپ ایک جملے میں ڈپریشن کا علاج پوچھیں تو وہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا پہ راضی ہو جائیں پھر آپ ڈپریشن سمیت کسی قسم کا کوئی ذہنی مرض نہیں ہوگا مگر تجربہ شرط ہے ذرا نہیں مکمل غور کیجئے