بچوں میں ذہانت کیوں اور کیسے؟

اکثر لوگوں نے یہ غلط فہمی پال رکھی ہے کہ آدمی کے اندر دانش و بینش(عقل وذہانت) ایک محدود وقت یا عمر تک ہی فروغ پاتی ہے۔ اس رواجی فکر کا میں خود بھی ایک عرصے تک اسیر رہا۔ اگر ایک واقعہ میرے ساتھ نہ پیش آتا تو میں بھی شاید عمر بھر اسی رواجی فکر سے چمٹا رہتا۔

چند سال قبل مجھے ایک ورکشاپ کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا۔ وہاں تین دنوں تک میرا قیام رہا۔ پہلے دن کے تھکادینے والے افتتاحی شیشن کے بعد جب مجھے کچھ فرصت ملی تو کالج میں زیر تعلیم ایک لڑکا مجھ سے ملاقات کے لیے آپہنچا۔ ورکشاپ کے اختتام بلکہ میری روانگی تک یہ میرے ساتھ ہی رہا۔ دوران قیام یہ لڑکا میرےتمام کاموں میں معاون ومددگاربھی رہا۔ میرے سامان اور دیگر اشیا کی دیکھ بھال کرتا۔ میرے کئی چھوٹے موٹے کام بھی اس نے سر انجام دئیے۔ میرے ساتھیوں کے خیال کے مطابق یہ ایک معمولی لڑکا تھا۔ کسی خاص قسم کی عقل و دانش، قابلیت وذہانت اس کے اقوال وافعال سے ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ میرا خیال بھی اپنے دیگر ساتھیوں سے کچھ مختلف نہ تھا۔

ورکشاپ سے واپسی کے بعدبھی چند دنوں بلکہ مہینوں تک یہ لڑکامیرے رابطے میں تھا۔ ایک سافٹ وئیر کمپنی میں اسے ملازمت مل گئی اور ہمارے روابط انحطاط کا شکار ہوگئے۔ دوسال بعدایک دن اچانک ہماری ملاقات ہوئی۔ اس میں کئی حیران کن تبدیلیوں کو میں نے محسوس کیا۔ اس کے چہرے، باڈی لینگویج، اقوال و افعال سے بالیدگی اور ذہانت و متانت ٹپک رہی تھی۔

خاص موقعوں پر کیسے پیش آتے ہیں، کس طرح سے بات کی جائے، اپنا ردعمل کیسے رکھیں اس کے لیے خاص بالیدگی اور ذہانت کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ لڑکے کے برتاؤ، اس کے طرزعمل سے میں نے اس کی ذہانت اور بالیدگی کے فروغ و ارتقاء کو نمایاں محسوس کیا۔

ذہانت کیا ہے؟

عموماً ذہن نشینی کی قوت یا قوت انجذاب(Grasping Power) کو ذہانت سے باور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاؤ ہ بھی ذہانت کے کئی اور معنی و مفاہیم پائے جاتے ہیں۔ ذہانت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ہم ذہن نشینی کی قوت(قوت انجذاب، قوت یاداشت) کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمیں اپنے موضوع(ذہانت ) کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

جب ہم اپنی کسی بات یا نکتے کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو جنہیں ہم سمجھاتے ہیں ان میں سے چندافراد فوری طورپربات کو سمجھ جاتے ہیں اور بعض اسے جلد نہیں سمجھ پاتے۔ اس حقیقت کا کئی بار میں نے اپنے ورکشاپس میں بھی مشاہد ہ کیا ہے۔ اگر کوئی لطیفہ سنایا جائے تو بعض فوری ہنسنے مسکرانے لگتے ہیں جب کہ چند افراد ہنسنے، مسکرانے والوں کے چہروں کو دیکھتے ہیں۔ ایساکیوں ہوتاہے؟ یہ صورت حال وقتی طورپر

عامل قوت انجذاب (Grasping Power)کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

قوت انجذاب/ذہن نشینی کی صلاحیت(Grasping Power)

ورکشاپ کے دوران ملاقات کرنے والے اورچند سال بعد ملاقات کرنے والے لڑکے کی قوت انجذاب میں، میں نے نمایاں فرق محسوس کیا۔ گفتگو کے دوران جو بھی اس سے کہا گیا اسے وہ فوری طورپر اپنی ذہنی دسترس میں لیتے ہوئے بڑے سلیقے و قرینے سے جواب دے رہاتھا۔ چند سال پہلے میری جس لڑکے سے ملاقات ہوئی تھی اب یہ وہ لڑکا نہیں تھا۔ اس ملاقات نے میرے خیالات و نظریات (جن پر میں ایک طویل عرصے سے تحقیق میں لگاتھا) کو بدل کر رکھ دیا۔ اس ملاقات کی وجہ سے چند سوال میرے ذہن کے نہاں خانے سے باہر نکل آئے۔

(1)بچے کی ذہانت ترقی کرتی ہے تو تب حقیقت میں کیا ہوتا ہے؟

(2)ذہانت کس عمر میں نشوونما پاتی ہے؟ ذہانت کس عمر تک ترقی پاتی رہتی ہے؟

ان سوالات پر جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ذہانت کی نشوونما میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک اداکار چالیس پینتالیس سال کی عمر میں اپنے رگ پٹھوں (عضلات،Muscles) کو مزید بہتر بناتا ہے۔ جسم کے رگ پٹھوں و عضلات(Muscles)کو جس طرح اپنی محنت سے ایک آدمی بہتر بناسکتا ہے بالکل اسی طرح آدمی اپنی محنت سے ذہانت، بالیدگی اور پختگی میں مزید اضافہ کرسکتاہے۔ والدین، اساتذہ، تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی کے کاز سے وابستہ افراد اگر اس اہم نکتے کو بہتر طریقے سے سمجھ لیں تو انھیں کسی بھی بچے کی ذہانت کو فروغ دینے میں دشواری پیش نہیں آئے گی۔

ذہانت کا غلط جگہ پر استعمال

اکثر والدین سے میں نے یہ شکایت سنی ہے کہ ان کا بچہ ذہین تو ہے لیکن جہاں ذہن کو استعمال نہیں کرناچاہیے اسے وہاں استعمال کرتا ہے۔ جہاں دماغ کو کام میں لانا چاہیے وہاں اسے کام میں نہیں لاتا۔ اس طرح کی شکایات عام ہیں۔ ہمیں اس شکایت کی تہہ تک پہنچنے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ شکایت بالکل درست ہے اور جس بچے سے یہ شکایت ہے اس کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر حالات میں مسئلہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔

شکایت کرنے والے والدین سے میں نے پوچھا ـ’’بچہ ذہین ہے‘‘ اس کا دماغ بھی اچھا ہے تو پھر بتائیے کہ اپنے دماغ کو یہ کہاں استعمال کرتا ہے؟

انھوں نے کہا ’’آپ اسے اگر کوئی اشتہار پڑھ کر سنانے کو کہیں تویہ اسے فوراً یاد کرلیتا ہے۔ ویڈیو گیمز کھیل نے میں اسے کوئی مات نہیں دے سکتا۔ ہماری گلی کے بچوں میں کسی کے پاس بھی ویڈیو گیمز میں ایسی مہارت و صلاحیت نہیں ہے۔

ایک اور ماں نے مجھے بتایا’’میں روزانہ پریشان رہتی ہوں کیونکہ میرا بچہ اسکول میں آئے دن نت نئے مذاق (Pranks) کرتارہتاہے۔ ہر دن مجھے ڈرلگارہتا ہے کہ اسکول سے آج کوئی شکایت نہ آجائے۔ مزید کہتی ہیں’’مذاق و شرارت کے وقت بچہ اپنے دماغ کو کیسے استعمال کرئے گا اس کی پیش قیاسی ممکن نہیں ہے۔وہ مذاق اورشرارت کے وقت ایسے تخلیقی طریقے(Innovative Techdniques) استعمال کرتا ہے کہ سبھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ ٹیچرس بھی اپنی نجی گفتگو میں اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتے۔ جب اسی تخلیقت کواسے پڑھائی میں بروئے کار لانے کو کہا جاتا ہے وہ اسے استعمال نہیں کرپاتا۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں کہیں اور استعمال میں آئیں گی لیکن پڑھائی میں ہرگز نہیں۔

اس طرح کے سوالات کرنے والے والدین ہر گھر میںمل جائیں گے۔ آئیے اس شکایت کی اصل وجہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1۔ ہر بچے کے پاس ذہانت پائی جاتی ہے لیکن وہ ظاہر نہیں ہو پاتی۔

2۔ کن حالات میں بچہ ذہانت کو استعمال میں لاتا ہے، اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔