مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کے بہت سے ایسے افرادجنہیں رب تعالیٰ نے مال و اسباب سے نوازا ہے، خیر کے کاموں اور خدمتِ خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اوراپنا حصہ ڈالتے بھی ہیں۔
مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ سبحان تعالیٰ اپنے کنبے پر خرچ کرنے والوں سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ حاجت مندوں کی مدد میں اگر دکھاوا،نمائش جیسی آلودگیاں شامل ہو جائیں تو ریا کاری جنم لیتی ہے جو خدمِت خلق کے سارے اجر کو ضائع کر دیتی ہے۔
خدمت خلق کی آڑ میں ریا کاری کا مظاہرہ کرنے والے افراد شیطان کی باتوں میں آکر اپنے نیک عمل کو ضائع کر لیتے ہیں۔ ان کی باتوں اور برتاؤ سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان کے مال و دولت کے خرچ کرنے میں خدمتِ خلق کتنی ہےاور ریاکاری کتنی؟
ذیل میں کچھ ایسے ہی رویوں کی نشان دہی کی جارہی ہے جو کسی ضرورت مند پر یا کسی بڑے اجتماعی کام کے موقع پر خرچ تو کرتے ہیں مگر اپنے تکلیف دہ رویوں سے یا نمائشی جذبے کے ہاتھوں اجر پانے سے محروم رہتے ہیں۔
1.بعض متمول افراد کسی کی کوئ ضرورت پوری تو کر دیتے ہیں مگر ساتھ نصیحتوں کا انبار بھی تھما دیتے ہیں کہ ایسا کرلیتے تو پیسے بچ جاتے۔ ذرا ہلکی کوالٹی کی چیز لے لیا کرو۔ یعنی ان کو احساس دلاتے ہیں کہ تم اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر پیسہ نہ لگاتے تو پیسے بچ جاتے۔ بھت تنقید کے ساتھ ان کی مدد کرتے ہیں۔
2۔ ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو از خود سمجھ لیتے ہیں کہ اس ضرورتمند کو دینا جائز نہیں۔اور ایسا ذیادہ تر اپنے قریبی رشتےداروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
3.۔ بعض کم وسائل رکھنے والے افرادانتہائی مجبوری میں ان کے پاس جاتے ہیں تو وہ عطا کرنے کے بعد ان پر احسان چڑھاتے ہیں اور اس کے بدلے سمجھتے ہیں کہ یہ اب ہمارا غلام بن گیا ہے۔
4۔ بعض افراد سوال کرنے والے پر طنز کے ایسے تیر چلاتے ہیں کہ لینے والا جو پہلے ہی اپنی عزت کا جنازہ نکال کر آتا ہے اس کا دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔
5۔ وہ معاشرے کے مخیر افراد جو بڑی رقوم خرچ کرتے وقت یہ اہتمام بھی کرتے ہیں کہ میڈیا پر اس کی تشہیر پوری طرح ہو اور انہیں نیک نامی ملے۔
6۔ سب سے بھترین وہ نیک صفت پرہیز گار لوگ جو اپنا صدقہ، خیرات و زکوٰۃ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اسطر ح دیتے ہیں کہ کسی کو کان و کان خبر بھی نہیں ہوتی تاکہ لینے والے کی دل آزاری نہ ہو۔اور رب کریم کوئی ایسے ہی لوگ محبوب ہیں۔آپ اپنا کچھ مال اعلانیہ بھی دیں تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ملے۔ اور پوشیدہ طور پر بھی دیں تاکہ نفس کو پھولنے کا موقع نہ ملے۔ اگر کوئی سفید پوش آپ سے کچھ مانگ رہا ہے تو اس کی عزت نفس مجروح کئے بغیر دیجئے۔ اس کی حاجت پوری کیجئے ۔ خدمت کرنے والوں کے لئے جو اجر ہے اس پر نگاہ رکھئے کہ جو دوسروں کی حاجت روائی کرتاہے اللہ دنیا و آخرت میں اسکی مدد کرتا ہے ۔
اللہ سبحان تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے لیے فرماتے ہیں، جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، ان کےخرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو۔ اگر زور کی بارش ہو جائے تو دوگنا پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اس کے لیے کافی ہو جائے۔ (306 البقرہ) اگر آپ کسی کی مدد کررہے ہیں تو اس پراحسان نہیں کررہے کیونکہ آپکے مال پر آپکے عزیز و رشتہ داروں کا اور غریب و مسکین کا حق ہے۔ اور حق ادا نہ ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ ہے۔
اور اگر کسی کے پاس استطاعت ہو اور وہ ہر ماہ صدقہ و خیرات کرتا ہے تو اسکو خوش ہونا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کا اس پر احسان ہے کہ اللہ نے اسے اس قابل بنایا۔۔اس پر شکر ادا کرنا اور انکساری اختیار کرنا ضروری ہے۔ نہ کہ غرور و تکبر اکڑ اور احسان جتانے جیسے برے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ عطا کرنا، حاجت روائ کرنا اللہ تعالی کی صفات ہیں اسی کے شایان شان ہیں وہ ہمیں عطا کرتا ہے تو ہی ہم کسی کو دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ وہ بادشادہ ہے پھر بھی ہم پر بہت مہربان ہے۔ لہذا خدمت خلق ضرور کیجئے مگر نیت اور عمل کے اخلاص کے ساتھ اور جس کا مقصد صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو۔