کچھ عجیب لگا نا عنوان؟ لیکن یہ آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
جگہ جگہ میرج بیورو بن گئے لیکن شادیاں اول تو ہونے کا نام نہیں لیتیں اگر ہو جائیں تو نبھتی دکھائی نہیں دیتیں۔
پریشان تو ہر دوسرا فرد ہے لیکن نہ کوئی وجہ ڈھونڈنے کو تیار اور نہ ہی حل سوچنے کے لیے۔
بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بچوں کے بلوغت کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی ماں باپ کی رات کی نیندیں اور دن کا چین رخصت ہو جاتا تھا۔
معاملہ گھر کے بزرگوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا، سر باہم جڑتے، خیالوں ہی خیالوں میں دورونزدیک کے تمام رشتہ داروں اور بھولے بسرے احباب کی اولادوں پر نظر ڈالی جاتی۔
پیغام بر نامزد ہوتا اور گوہر نایاب کو تلاش کر کےبالا ہی بالا رشتہ طے کر دیا جاتا۔نہ تصویر کا مطالبہ،نہ فون نمبروں کے تبادلے۔
(نہ لڑکے دھتکارے جاتے نہ ہی لڑکیاں ٹھکرائی جاتیں)۔
پھر بچوں کو بٹھا کر زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے ہوئے مدعا بیان کیا جاتا۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے، ان دیکھے جیون ساتھی کے خواب دیکھتے بچے ماں باپ کی رضا پر سر جھکا دیتے۔
حقیقی شریک حیات پاکر کچے دھاگے سے بنے رشتے کو محبت و وفا کی گانٹھوں سے مضبوط کرتے ،بزرگوں کی لاج رکھتے۔ والدین سکھ کا سانس لیتے اور پوتے پوتیوں کو گود میں کھلانے کے خواب دیکھنے لگتے۔
تب انسان، انسانوں سے ناطے جوڑتے تھے، جن میں مروت و لحاظ کو مقدم رکھا جاتا تھا۔
بائیس کا سن پار کرتی بیٹی کا باپ کسی بہن بھائی کو منہ سے پیغام بھیجتا تو اس کے کہے کی لاج رکھی جاتی اور بیٹی کو مرتے دم تک کانوں کان خبر نہ ہو پاتی کہ وہ باپ کے لیے بوجھ بن گئی تھی۔
بائیس کے سن میں اکثر لڑکیاں اور پچیس کے سن میں اکثر لڑکے ایک ایک بچے کے ماں باپ بن چکے ہوتے۔ اور نومولود دادا دادی کے ساتھ ساتھ پردادا،پردادی کے لمس کو بھی محسوس کرتے۔
تب بہنیں بھائیوں کا اور بھائی بہنوں کا مان رکھا کرتے تھے۔
پھر زمانے کا چلن بدلا، لوگوں کے معیار اور انداز سبھی بدل گئے۔
بائیس سال کی نوخیز لڑکی، بچی اور پچیس سال کا خوبرو جوان، بچہ کہلایا جانے لگا۔
تعلیم نسواں کا غلغلہ مچا اور کرئیر کی دوڑ نے بہت کچھ تبدیل کردیا۔
رہی سہی کسر بے لگام میڈیا اورگلیمرس زندگی نے پوری کر دی۔
اب لوگ شہزادے، شہزادیوں کی تلاش میں منڈیاں لگاتے ہیں۔ حسن کا شاہکار، تعلیم، یافتہ، گورنمنٹ نوکری، خاندانی، سانچے میں ڈھلا بدن، گورا رنگ، سرمگیں آنکھ، بولے تو پھول جھڑیں اور سب سے بڑھ کر عقل سے پیدل ہو۔ موم کی طرح جیسے چاہے موڑ لیں۔ لڑکا ہو تو بیوی کا خادم بن جائے لڑکی ہے تو سسرال آکر پچھلا سب بھلا دے۔
خیر دعوتیں ہوتی ہیں، ملمع چڑھائے خیر سگالی کے جذبات دکھائے جاتے ہیں، خوب ٹھونک بجا کر تسلی کی جاتی ہے، ریٹ لگتے ہیں، بھاؤ تاؤ ہوتے ہیں، بات نہیں بنتی تو اگلے گھر کا رخ ہوتا ہے، بنا سوچے اور سمجھے کہ یہ دکانوں میں سجے شو پیس نہیں، گوشت پوست کے انسان ہیں جو دل بھی رکھتے ہیں اور احساسات بھی۔
بڑھتی عمریں، روز روز کی نمائش اور آخر میں انکار۔ خودکشیوں، قتل، نفسیاتی امراض، بانجھ پن، ڈپریشن، زنا اور ریپ کے واقعات میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔
اے میرے دور کے ماں باپو! خدارا سنبھل جاؤ۔ اپنے معیار کچھ کم کر لو،
اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے اپنے نوجوان بچوں کی عزتوں، حرمتوں، صحتوں، ذہنوں، نظروں اور حیا کی حفاظت کے لیے نکاح آسان اور جلدی ممکن بناؤ۔
کبھی کبھی پلٹنے میں ہی عافیت ہوتی ہے، سبھی رستےمنزل کو نہیں جاتے۔
سوچ بدلو۔ معاشرہ بدل جائے گا۔
نئی نسل کو تنہائی کاتحفہ مت دیجئے۔