کیا ہم نے کبھی کسی ایسے انسان کو دیکھا ہے جو ذہنی، جسمانی، مالی بلکہ ہر لحاظ سے خوش حال ہو اور اسے ڈپریشن کی بیماری کا مرض لاحق ہو؟
میری نظر میں وہ بے حد نا شکرہ بندہ ہو گا جو ساری نعمتوں کے حاصل ہونے کے باوجود ذہنی اذیت کا شکار ہو۔ ہمارے معاشرے میں اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو دو فیصد طبقہ اپر کلاس اور باقی متوسط اور متوسط سے بھی نچلے درجے کی چکی میں پستے عوام نظر آتے ہیں۔ اور یہی لوگ ڈپریشن یعنی ذہنی اذیت سے دو چار ہو رہے ہوتے ہیں۔
کراچی کی عوام تو اس وقت جس کیفیت میں مبتلا ہیں اس کو تو ڈپریشن سے بھی اوپر کوئی اصطلاح استعمال کی جانی چاہئے،مہنگائی تو پورے ملک میں ہی چھائی ہوئی ہے مگر دوسرے شہروں میں کچھ نظم و ضبط، صفائی ستھرائی، اچھی سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ میں بہتری نظر آتی ہے مگر لاوارث کراچی کی عوام پر سہولت کا ہر دروازہ جیسے بند کر دیا گیا ہے۔
ایسے حالات میں پستے لوگ ڈپریشن کا شکار نہ ہوں تو یہ ان کے حوصلوں کو سلام ہے۔ ڈپریشن عادت تو ہر گز نہیں ہے کیونکہ عادت اچھی ہو یا بری انسان کوشش کر کے اس پر قابو پا سکتا ہے مگر جہاں وہ کچھ کرنا چاہے اور حالات کے تحت کر نہ پائے تو اس وقت وہ جس ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے اس کا نام ڈپریشن ہے۔
ذہنی دباؤ سے بچنے کا سادہ اور آسان حل اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے ملے گا۔ سادہ طرز زندگی، حرص و ہوس سے درو رہنا، تقویٰ اور پرہیز گاری آسان زندگی کی ضمانت ہے۔ جسے اللہ نے جتنا دیا ہے اس پر قناعت کرے اور اس میں سے بھی اللہ راہ میں کچھ نہ کچھ ضرور نکالے کیونکہ اللہ نے ایک کا دس گناہ لوٹانے کا وعدہ فرمایا ہے۔
باقی اللہ سے دعا ہے کہ نصیب میں جتنی عمر لکھ دی گئی اللہ صحت اور تندرستی والی ہی گزارنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔