شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اَعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کرنا۔ پہلے انفرادی بات کرتا ہوں کہ میں خود اس بیماری کا شکار ہوں اگر میرے پاس اچھا موٹر سائیکل ہے تو میری نظر گاڑی پر ہے کبھی میں سائیکل والے کی طرف نہیں دیکھوں گا یا وہ جو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہا ہے اور جو اللہ کا بندہ پیدل ہے وہ تو کسی کھاتے میں ہی نہیں آتا۔ محترم اشفاق صاحب تو ناشکری کو روحانی بیماری کہتے ہیں۔ پہلے تو صرف جوان لوگ ہی اس بیماری میں مبتلا تھے اب تو ہر شخص اس کا شکار ہے۔
گرمی کے موسم میں ہر وقت موسم کی شدت کے شکوے، ذرا سردی آ جائے تو اب اس موسم میں ہم غریبوں کا کیا بنے گا۔ سونے پہ سہاگہ یہاں لوگ بارش سے بھی نالاں نظر آتے ہیں بارشیں تو ہوتی ہی پوش علاقوں کے لیے ہیں ہمارے علاقوں میں تو صرف کیچڑ ہی ہوتا ہے سر راہ ایک بات یاد آئی کہ ایک اللہ والے کے خواب میں ان کے حال ہی میں فوت ہوئے عزیز آئے، پوچھا کیا معاملہ رہا انہوں نے جواب دیا کہ کہ اللہ نے ایک سوال پوچھا ہے اس کا جواب نہیں دیا جا رہا ہے اور انھوں نے فورا پوچھا کہ کیا سوال ہے، دنیا کی زندگی میں ایک دن میں باہر نکلا تو اچانک بارش شروع ہوگئی میرے منہ سے نکل گیا یہ کون سا موسم ہے بارش کا اللہ تعالی نے مجھ سے پوچھا ہے یہ بتا کہ بارش کا صحیح موسم کون سا ہے؟
اب قارئین اگر ہم اپنی زندگیوں پر غور کریں کہ صبح سے شام تک ہر وقت خالق کائنات کی ناشکری کرتے ہیں اور خود کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں اگر تم شکر گزار بنو گے تو اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔
ایک اور بات کہ ہر زمانے میں شکرگزار لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے سورہ سبا میں ارشاد ہے کہ میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں لیکن اہم یہ کہ یہ لوگ معاشرے کا حسن ہے ہمیشہ آپ انہیں مطمئن پائیں گے۔ ہر صورت حال میں ان کا ردعمل بہت ہی منفرد ہوگا۔ جیسے گرمی ہے تو اس کے اپنے فائدے ہیں گندم پکتی ہے، پھلوں کا بادشاہ آم اور ایسی بہت سی نعمتیں کھانے کو ملتی ہیں۔ اگر بارش ہوتے ہی لائٹ چلی گئی تو بہت سے لوگ حادثات سے بچ جائیں گے۔ موٹر سائیکل ہے تو اس کے اپنے فائدے ہیں .وقت بہت بچ جاتا ہے، چھوٹی گلیوں میں آسانی سے جا سکتے ہیں
کائنات کے کامیاب ترین شخص کی بارگاہ میں یہ سوال ادب سے پیش کرتے ہیں کہ ناشکری سے شکرگزار بندہ کیسے بنا جاسکتا ہے ؟ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ بندہ جب اپنے سے مال اور شکل و صورت میں بہتر شخص کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اس شخص کی طرف دیکھے جو اس سے کمتر ہے.
مومن کو چاہیے کہ وہ آخرت کی فکر کرے کیونکہ ہر وقت دنیا کے پیچھے بھاگنا بھی انسان کو ناشکرا بنا دیتا ہے مال ضرور کمائیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اس کا جواب دینا ہے کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ تیسرا یہ کہ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کو صرف اپنی محنت سمجھنا بھی انسان کو ناشکرا بنا دیتا ہے پھر ان کا حال بھی قارون جیسا ہی ہوگا بے شک اللہ تعالیٰ ان کا مال تو زمین میں نہیں دھنسا دیتا لیکن ان کا سکون اور چین چھین لیتا ہے
آخر میں خالق کائنات سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بننے کی توفیق دے تاکہ ہم دنیا میں بھی مفید شہری بن سکیں اور آخرت میں بھی رسوائی سے بچ سکیں۔