ظلم کی رات ڈھلنے والی ہے

ڈاکٹر عافیہ کی ریسرچ بچے کی ذہنی صلاحیت اوراس کے مطابق نصاب تعلیم cognative) nerosience )  پر تھی یہ بات امریکہ کو ہضم نہیں ہوئی۔ سچ اور فکر اخلاقیات سے قومیں بنتی ہیں۔ اچھی سوچ اور فکر ،عشق کے اور امتحانوں سے بھی گزرنے کے لئیے۔انسان کو سرگرم اور تیار کرتی ہے۔ اس سے امریکہ کا ورلڈ آرڈر جس نے ذہنی طورپر انسان کو غلام بنا رکھا ہے۔ ڈگریاں ہیں۔ لیکن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور اپنے رب پر توکل کی کمی مسلمانوں میں دوسرے مذاہب کے ماننےوالوں سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر عافیہ سے پہلے 200سے سائنسدان امریکہ کےہاتھوں اذیت ناک موت مارے جاچکے ہیں اور یہ وہ لوگ تھے جو اپنی فیلڈ کے ماہر تھے اور انکا ریسرچ ورک بھی غائب ہے ۔ہمیں(اُمت مسلمہ) اپنی مرضی اپنے جسم پر لگا کر خود امت کاشکار کیسے کیسے کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی سطح یعنی انفرادیت سے آگے سوچتے نہیں اللہ ہمیں ہدایت دے ہم استاد اپنے موچے کو اگر ٹھیک سے سنبھال لیں تو نوجوان جو ذہنی صلاحیتوں سے عاری ہوتے جارہے ہیں انکی سوچ اور فکر کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے لیکن اس قبل ہمیںاپنی ذاتی اناکے حول سے نکلنا پڑے گا۔

عافیہ جس فکر اور سوچ کو غلامی کی زنجیروں سےنجات دینا چاہتی تھی اسے وحشت اور بربریت کی اس چکی میں پیسا گیا جس میں شاید (چنگیز خان جس کا ظلم تاریخ میں سب بڑا تسلیم کیا جاتا ) کم پڑ جاتا ہے اسکا ظلم۔ 23 سال اپنی زندگی کے امریکی تہذیب اور انسانی حقوق کا خیال اور انصاف کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ کو خود عافیہ نے لمحہ لمحہ دیکھا ہے، اس کے سامنے کے چار دانت توڑدئیے گئے اسے گولی بھی ماری گئی اسے 86 سال کی سزا اس جرم کی ملی جو اس نے کیاہی نہیں ۔ یہ واحد قیدی ہے جس نے جرم تسلیم نہیں کیا۔ جو دفعات عافیہ پرلگائی گئی اسکی سزا زیادہ سے زیادہ چالیس سال بنتی ہے لیکن جج برمن نے عافیہ کو تعصب کی بنا پر 86 سال کی بامشقت قید کی سزا سنائی ہے ۔ وہاں کے لوگ کہتے ہیںکہ یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔

عافیہ ذہین ترین اشخاص کی لسٹ میں شامل تھی FBI اشخاص کی لسٹ میں یہ ٹاپ پر تھی، عافیہ phd ڈاکٹر ہے ۔ پاکستان نے اپنے بہترین افراد کو ضائع کیا اللہ نے جہاں اور بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے وہاں بہترین افراد سے اس قوم کو مزین کیا لیکن جس نے بھی اس قوم اور اس سرزمین کی بہتری سوچی اس عبرت بنانے کی کوشش ہوئی اور کچھ میںکامیابی بھی ہوئی ۔

محمد علی جناح سے لے کر عافیہ تک کسی کو ریاست کی محبت نہ مل سکی ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر جب زندہ تھے کیا کیا ان کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ذہنی غلامی بہت بڑی بلا ہے۔ بات سمجھ میں آتی ہے کہ طاقت ور جانور چاہے شیر،ہاتھی یاگھوڑا ذہنی طورپر غلام بن جائے تو اپنی طاقت کا استعمال بھی بھول جاتا ہے ۔مالک اسے لمبی رسی کے ساتھ گھاس کھانے لئیے چھوڑتا ہے لیکن اسکی رسی اپنے پاس ہی رکھتا ہے اور وہ سمجھتا میںآزادی سے چر رہا ہوں،لیکن ایک اشارے پر وہ اپنے مالک کے پاس پہنچتا ہے ۔

ہمارے مسلمان 34 ممالک کے حکمران اور اور اس گھوڑے کی طرح ہیں اور ان میں عوام کی اکثریت ذہنی غلام، ﷺ کی پوری شریعت، پورا نظام زندگی، عملی طورایک ایک لمحہ محفوظ پھر بھی سوشلزم اور کیپیٹل ازم سے متاثر مسلمان جن کا دعویٰ عشق رسول کا ہے ذرا بھر بھی اپنی سوچ کو بدلنے کوتیار نہیں۔ ہم مسلمان جتنا مرضی سر پٹخ لیں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک اللہ کو اپنا حاکم نہ مان لیںاور خاتم النبین ﷺ کی لائی شریعت کے مطابق نظام زندگی نہ بنالیں،اگر اس کے تحت ریاست پاکستان کا نظام چل رہا ہوتا تو پاکستان کی بیٹی کو امریکہ کے ہاتھ میں دینے سے پہلے حاکم بیسیوں بار سوچتا۔

جس پر مرضی الزام لگاؤچند پیسوں کے عوض دن دہاڑے اسے اغوا کر لیں یہ تو جگا ڈاکو کا کردار ہے ایک مہذب قوم کا رویہ تو نہیں ۔اپنی مرضی سے اسے القائدہ سے جوڑنا پھر اغوا پھر فوجی پر حملہ اور اسکاخالد الشیخ کے بھتیجے سے نکاح، پھر اس پر کیمکلز ہتھیار اور دستاویزات افغانستان پہنچانے کا الزام،پھر سب بڑا الزام کہ وہ افغانستان جہاد کے لئے گئی وہاں گرفتار ہوئی ۔یہ جھوٹ کے پلندوں پر قوم انکھیں بند کر کے کیسے یقین کر سکتی ہے ؟ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان سے اغوا کر کے لےجایاگیا ۔

جب سے ریاست نے اپنے لوگ ڈالرز کے عوض بیچے ریاست کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سوچئے کہ 23 سال ڈاکٹر عافیہ کس کرب سے گزری ہے۔ ہماری قوم نے بھی کبھی ضروت محسوس نہیں کی اپنے لوگ اٹھالئیے گئے انہیں کار سے کچل دیا گیا، موٹر سائیکل سے اڑدیا گیا لیکن ! بے حسی انتہا کی۔ کیونکہ ایوان اقتدار میں موجود غلامی کادم ہی نہیں بھرتے بلکہ ہر وقت دم بھی ہلاتے رہتے ہیں۔

گہری سیاہ اماوس کی رات بھی چھٹ ہی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ پر ظلم کی رات بھی ڈھلنے والی ہے۔ ان شاء اللہ۔