تلخ لہجے اور رویے‎‎

ساس ! بہو کےلباس کو دیکھتے ہوئے آپ تیار ہوگئیں بیٹا؟

سمیرا ! جی امی، آپ تیار ہیں؟

ساس، ہاں بیٹا میں چادر لے لوں

سمیرا، چادر؟ ہم تو زینب خالا کے گھر جائیں گے آپ چادر لیں گی؟

ساس، ہاں میری جان ہم ٹیکسی میں جارہے ہیں ظاہر ہے اپنی گاڑی میں جاتے ہیں تو اپنے ہی بیٹے گاڑی چلاتے ہیں اور ٹیکسی میں تو غیر مرد ڈرائیور ہو گا (سمیرا نے گلے میں برائے نام دوپٹہ لیا ہوا تھا اسکی شادی کو ابھی دو مہینے ہی ہوئے تھے) شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے ساس نے کہا آپ ٹیکسی یہیں منگوائیں تو بہتر ہوگا،

خالا کے گھر پہنچ کر اس نے بیٹے کو فون کیا کہ واپسی میں آکر ہمیں لے جانا۔

اسد صاحب(بیوی سےبہو کےلئے) سمیرا بیٹی کو ذرا سمجھاو اس کا لباس، میرا مطلب ہے دوپٹہ وغیرہ اچھی طرح لیا کریں۔ ریحانہ  اسد اس کی شادی کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں ظاہر ہے وہ ایک دم اپنے آپ کو نہیں بدل سکتی ہمیں اسے وقت دینا چاہیے ویسے وہ اچھی لڑکی ہے سمجھ جائے گی۔

ریحانہ ! سمیرا بیٹی یہ دیکھو میں تمہارے لئے لائی ہوں، سمیرا یہ تو بلوچی اور سندھی اسٹائل چادر ہے بہت خوبصورت ہے تھینک یو امی،،،،،ریحانہ تم پر بہت جچے گی ماشاءاللہ، ویسے بھی کبھی کبھار ٹیکسی وغیرہ میں آنا جانا ہوتا ہے تو چادر پورے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے۔ ساس کی بات سن کر سمیرا کو احساس ہوا کہ اس نے تو کبھی اس پر غور ہی نہیں کیا اس وقت بھی اس کے گلے میں رسی کی طرح دوپٹہ جھول رہا تھا۔

اس نے نوٹ کیا تھا کہ جب بھی ساس سے اس کے بھائی اور دیور وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے وہ اپنے دوپٹے کو سر پر لیکر اچھی طرح اپنے گرد بھی لپیٹ لیتی، آج گھر میں کچھ مہمان آنے والے تھے دونوں ساس بہو کچن کے کاموں سے فارغ ہو کر کپڑے بدلنے گئیں جب ریحانہ تیار ہوکر لاؤنچ میں آئی تو سمیرا کو دیکھ کر اسے نا صرف حیرانی ہوئی بلکہ خوشی بھی ہوئی سمیرا نے بڑے سلیقے سے سر پر بڑا سا دوپٹہ لیا ہوا تھا۔

اس طرح ریحانہ نے بڑے مثبت طریقے سے سمیرا کو کچھ زندگی کے گر سکھائے جس پر سمیرا نے بھی برا مانے بغیر قبول کیا اگر ریحانہ تلخ لہجے یا سختی سے سمیرا کو یہ سب سمجھانے کی کوشش کرتی تو بجائے فائدے کے گھر کی فضا خراب ہوجاتی۔ یقیناً انسان کا مثبت طریقہ اور رویہ سامنے والے پر ضرور اثر انداز ہوتاہے اور تعلقات بھی خراب نہیں ہوتے جبکہ تلخ کلامی و رویہ ایک دوسرے کے لیے صرف نفرت ہی پیدا کرتے ہیں جس سے ایک دوسرے کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔