جب سے سینیٹر مشتاق احمد کی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے تگ ودو دیکھی تو ایک امید کی کرن نظر آئی کہ کوئی تو سبیل بنی ہے کوئی راستہ تو نظر آیا ہے ۔
اور اب جب سے ملاقات کی خبر سنی تو یہ امید مزید تقویت اختیار کر گئی کہ اللہ ہمیں سرخرو کر دے کیونکہ جب جب ڈاکٹر عافیہ کی قید اور ان کے خاندان کی صورتحال پڑھی اور محسوس کی تو دل خون کے آنسو روتارہا۔ ہمیشہ تاریخ پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا تھا کہ جب ان کے حکمران یہ سب غلط کر رہے تھے تو عوام کہاں تھی؟ ڈاکٹر عافیہ اور دوسرے لاپتہ افراد کی فہرست سے یہ آگہی ملی کہ عوام تو صرف دل میں ہی برا جاننے کو ایمان مان جاتی ہے۔
آج مشتاق صاحب کے کمنٹس پڑھ کر جو دل لہو لہو ہوا کہ وہ بھی تو تن تنہا اتنی کوششیں کر رہے ہیں تو مجھے اور آپ کو اپنی کوشش کرنا ہے ارباب اختیا ر کو مجبور کرنا عوام کو آگہی دینی ہے کہ دیکھو محمد بن قاسم تو آج بھی موجود ہیں آنکھیں تو کھولو کوئی تو دیکھو آج جب سب سیاست دان حکومت اقتدار کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہاں مشتاق صاحب کی ترجیہات الگ ہی ہیں وہ سب چھوڑ چھاڑ مظلوم بہن سے ملاقات کر رہے اور ساتھ اپنی بے بسی پہ آنسو بھی بہا رہے ہیں۔
اب مجھےاور آپ کو کھڑے ہونا ہے انکی پشت پہ ان کو سہارا دینے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے کو سوشل میڈیا پہ اٹھانے کے لیے کہ ہم بھی اس مہم میں کچھ حصہ ڈال جائیں کہ رب کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔