میں نے اپنے بچپن میں ایک ڈراؤنی مووی دیکھی تھی جس کا نام تھا ” بیس سال بعد”۔ کل سے ایک خبر دل کو چیر رہی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن فوزیہ صدیقی سے بیس سال بعد جیل میں ملاقات ہوئی ہے۔ فلم تو فلم ہوتی ہے اس میں ہر چیز کی شوٹنگ کی جاتی ہے مگر پھر بھی ہم اس کے کسی جذباتی سین میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتے ذرا سوچئے ! کہ کل اس بہن کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی جو بیس سال سے کسی اپنے کی شکل دیکھنے کی منتظر تھی اور ملاقات کے وقت نہ اسے بہن کے گلے لگنے کی اجازت ملی اور نہ ہی اپنے اہل خانہ کی تصاویر دیکھنے کی رعایت۔
ایک موٹے شیشے کی دیوار کے پار ان دونوں بہنوں کی کی کیفیت کیا ہوگی یہ ہم مشتاق صاحب کی اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں جو ملاقات کے بعد انہوں نے بتائی وہ کہتے ہیں میں کل سے ٹراما میں ہوں اس کیفیت سے باہر آؤں تو قوم کو جگاؤں گا۔
کاش ! کہ یہ قوم جاگ رہی ہوتی تو آج عافیہ صدیقی جیل کی صعوبتیں کاٹ ہی کیوں رہی ہوتی، اس قوم کے ضمیرکو تو پتا نہیں کون سا نشہ دے کر سلا دیاگیا ہےجو جاگنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ارض پاک کے دو ٹکڑے ہوئے ہم سوتے رہے، ملک کے دو وزائے اعظم کو جلسہ گاہ میں قتل کر دیا گیا ہم سوتے رہے، سانحہ کارساز ہوا ہم سوتے رہے، بلدیہ کی فیکٹری میں زندہ ورکر جل کر خاک ہوئے ہم سوتے رہے، عمران خان کی ریلی کی کوریج کرتے ہوئے لیڈی رپورٹر فرائض کی انجام دہی کے دوران مبینہ حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھی ہم سوتے رہے۔ 12 مئی کو شہر کراچی میں قتل عام ہوا ہم سوتے رہے اور ابھی موجودہ مئی کے مہینے میں ہی ملک میں جو جو ہنگامہ خیزیاں مچیں اس سے کون واقف نہیں مگر ہم اب بھی سو ہی رہے ہیں۔
آخر یہ کون سی خواب غفلت کی کیفیت ہے جس سے ہم جاگنے کی کوشش تک نہیں کرتے ؟ ڈاکٹر عافیہ نے ملاقات کے پہلے گھنٹے میں اپنے اوپر کی جانے والی بہیمانہ تشدد کی داستان سنائی کیا گز رہی ہوگی قوم کی اس بیٹی پر سوئی ہوئی قوم کیسے سمجھے گی؟
اللہ سے دعا ہے کہ اس قوم کی بیٹی کی آزمائش ختم ہوجائے اور وہ اپنی زندگی میں اپنے وطن واپس آکر اپنے بچوں اور اپنے اہل خانہ سے مل سکے۔
خدارا اس وقت میں ایک آواز ہو کر اپنی اس بہن کی رہائی کے لئے آواز اٹھائیں یہ آزمائش ڈاکٹر عافیہ کی نہیں ہم سب کی ہے اور ہمیں اس آزمائش میں پورا اتر کر اپنے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہونا ہے۔