وادی کشمیر کو دنیا کی جنت نظیر کہا جاتا ہے۔ یہ حسین وادی ندی نالوں ،دریاوں، کوہساروں، مرغزاروں، برف پوش پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ وادی کشمیر کا ایک خوبصورت خطہ جسے وادی نیلم کہتے ہیں قدرت کے حسین نگینوں میں سے ایک نگینہ ہے۔
برف پوش پہاڑ ،گھنے جنگلات، دریا کا نیلگوں شفاف پانی، سر سبز وادیاں، وادی نیلم کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ نیلم کے حسین اور خوبصورت علاقوں میں اٹھمقام، کیرن، اپر نیلم، شاردہ، کیل، ارن کیل اور تاؤ بٹ شامل ہیں۔ کیرن سے متصل علاقہ مقبوضہ کشمیر کا ضلع کپواڑہ ہے جسے دیکھ کر ایک انجانہ سا کھچاؤ پیدا ہوتا ہےاور مجھے دو جگہوں پر ایسا محسوس ہوا ایک ٹیٹوال کے مقام پر اور دوسرا کیرن کے مقام پر۔ دل سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے دعا نکلی۔
وادی نیلم میں بسنے والے لوگ بھی اس وادی کی طرح خوبصورت، خوش اخلاق اور خوش مزاج ہیں۔ یہاں پر مختلف قبائل اور برادریوں کے لوگ آباد ہیں۔ جن میں سادات راجہ، چوہدری، میر، لون، بٹ وغیرہ شامل ہیں۔ زیادہ تر لوگ زمینداری کے پیشے سے وابستہ ہیں جبکہ کچھ ملازمت پیشہ ہیں اور دیگر سیاحت سے روزگار کماتے ہیں۔
وادی نیلم نہ صرف خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے بلکہ ایک قدیم تاریخ بھی رکھتا ہے۔ ان تاریخی مقامات میں سے ایک شاردہ بھی ہے۔ شاردہ مظفر آباد سے شمال مشرق کی جانب 136 کلومیٹر کے فاصلے پر فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں اور دریائے نیلم کے آس پاس واقع ہے۔ کنشک اول(نیپال کا شہزادہ) کے دور میں شاردہ وسط ایشیا کی سب سے بڑی تعلیمی درسگاہ تھی۔ یہاں بدھ مت کی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تاریخ، جغرافیہ، ہیت، منطق اور فلسفہ پر مکمل تعلیم دی جاتی تھی۔ مشرق میں وادی نیلم سرینگر سے منسلک ہے۔ شاردہ یونیورسٹی کا قدیم نام شاردہ پتھ تھا پتھ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں روحانی تکریم سے نوازہ گیا۔ عمارت کی تعمیر آ ج کے انجینئرز کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
شاردہ سے 1 کلومیٹر جنوب مشرق میں کھریگام کے آس پار دریائے کشن گنگا کے قریب کشن گھاٹی کے نام سے ایک گاؤں مشہور ہے۔ ریاست جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان و لداخ گزشتہ سات دہائیوں سے ایک متنازعہ خطہ ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے آزاد کشمیر ،بھارتی زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگ فطری راستوں کی عدم موجودگی اور قانونی بندش کے باعث تہذیبی، ادبی اور فنی تبادلہ کے عمل محروم ہیں۔
وادی نیلم کی تاریخی حیثیت اور اس میں موجود tourism potential کو مزید اجاگر کرتی ہے ۔اور محکمہ سیاحت کو adventure tourism،پیرا گلائڈنگ ،راک کلئمنگ اور کشتی رانی کے علاوہ دیگر متعدد سرگرمیوں میں سہولت کاری کرنی چاہیے تا کہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع میسر آئیں ۔اور آنے والے سیاح قدرتی حسن سے مزید لطف اندوز ہو سکیں۔
گزشتہ تین سے چار سال سے حکومت آزاد کشمیر سیاحت کے شعبہ پر کام کر رہی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے اور آثار قدیمہ کے تحفظ پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کے تسلسل سے سیاحت کو مزید فروغ ملے گا۔