اٹھائیس مئی یوم تکبیر وہ تاریخ ساز دن ہے جب اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے اپنے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں، اقوام عالم کے تمام تر تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا کر ثا بت کر دکھایا کہ پاکستان نہ تو وہ کسی سے کم ہے اور نہ ہی کسی میدان میں پیچھے۔
حالانکہ اس وقت کے امریکی صدربل کلنٹن نے پاکستان کے حکمرانوں کو ٹیلی فون کرکےاقتصادی دھمکیوں سے ڈرایا تو کہیں پانچ ارب ڈالر کے امدادی پیکج کالالچ دیا۔ یہ وہ ایام تھے جب 11 اور 13 مئی کو بھارت راجستھان میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بجا چکا تھا، بھارت نے یکے بعد دیگرے 5 دھماکے کر کے اس خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی مذموم سازش کی تھی جسکا ہر صورت جواب دینا لازمی تھا۔
اس واقعہ کے بعد ملک کے سب ہی حلقوں میں یکساں تشویش پائی جاتی تھی، اس وقت اہل پاکستان پر صرف ایک جنون طاری تھاکہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دینا ضروری ہے۔ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرنے والوں کو بتانا ہے کہ ہم ان کے شرلی جیسے ہتھیاروں سے ڈرنے والے نہیں ہم جوش و جذبات میں بھی ان سے زیادہ ہیں اور قوت و طاقت میں بھی کسی سے کم نہیں۔ ہم ایک امن پسند قوم ہیں مگر جارحیت برداشت ہر گز نہیں کریں گے، ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتے ہیں۔
آخر کار 28مئی 1998ء کی سہ پہر تین بج کر 16 منٹ پر امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا کی رسد گاہوں میں الارم کا شور بلند ہوا۔ سیسمو گرافک آلات یکدم حرکت میں آئے، کوئی رسد گاہ اس کو 40 کلو ٹن کا دھماکہ دکھا رہی تھی تو کوئی 25 سے 30 کلو ٹن، کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ سب کچھ زیر زمین کہاں پر ہوا ہے۔ عالمی میڈیا پر ایک شور برپا ہوا اور پاکستان نے وہ کر دکھایا جس کی برسوں پہلے سے توقع کی جا رہی تھی اور یوں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک بن گیا اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ یہ پہلا اسلامی ملک تھا جس نے ایٹمی شعبے میں یہ کمال حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے ایٹمی سائنسدان اور حکمرانوں نے وطن عزیزکو ناقابل تسخیر بنانے کا یہ دلیرانہ قدم اٹھا کر مسلم امہ کو بھی روشن راہ دکھائی کہ وہ بھی اس تاریخ ساز قدم کو دیکھ کر دنیا میں فخر سے جینا سیکھیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب اس کے خاتمے کے لیے پوری دنیا کی طاقتیں برسر پیکار تھیں مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نظر کرم نے اس کی تکمیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ایٹمی تجربے سے قبل سیاست دانوں اور عوام کی فکر مندی تو اپنی جگہ پر مگر افواج پاکستان جس کے ہاتھوں میں ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے، سب سے زیادہ بے چین تھی۔
ہر کوئی اپنے اپنے خدشات کا اظہار کر رہا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دھماکہ کرنے کے لئے صرف 10 دن کا وقت مانگا اور بڑے فخر سے یہ بات کہی کہ خان ریسرچ لیبارٹریز نے یورنیم انرچمنٹ کا کام بغیر کسی بیرونی مدد کے خود ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔اس دوران امریکی صدر کی طرف سے تنبیہات کا سلسلہ بھی شروع رہا مگر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ایٹمی دھماکوں سے باز رہنے کی پیشکش مسترد کر دی گئی۔
بھارت کی طرف سے کئے گئے دھماکوں پرتو عالمی برداری کے کان پر جوں تک نہیں رینگی مگر پاکستان کے دھماکوں نے تو جیسے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ بہت سے ایسے ممالک جو اسلامی کانفرنس کے رکن نہیں تھے نے مذمتی بیانات جاری کئے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر 1172 منظورکی جس میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کی مذمت کی گئی۔ کچھ ممالک جن میں امریکہ بھی شامل تھا اور اس کے علاوہ جاپان، آسٹریلیا، سویڈن، کینیڈا اور آئی ایم ایف نے تو پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ جاپان تو ایک قدم اور آگے بڑھ گیا اور اس نے پاکستان سے اپنا سفیر واپس بلا کر سفارتی تعلقات معطل کر دیئے۔ تاہم یہ اقصادی پابندیاں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے عہد صدارت میں اٹھائی گئیں۔
آج پاکستان دوسرے ایٹمی ممالک کی طرح ان کے ہم پلہ ایٹمی قوت ہے،اس کے اثاثے فوج کی حفاظت و تحویل میں ہیں اور فوج کا اپنا ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہے۔ ہمیں جہاں اپنی اس ایٹمی صلاحیت کے حاصل کرنے پر فخر ہے، اتنا ہی فخر ہمیں اپنی مسلح افواج پر ہے جس کے جوانوں نے ملک و قوم کے لئے ہمیشہ آگے بڑھ کر ایثار اور قربانی کے جذبے کا مظاہرہ کیاہے۔