اللہ کے پیغام کا مسکن ہے وطن
ہم جس میں ہیں محفوظ وہ دامن ہے وطن
گہوارۂ اسلام ہے ملک قائد
ہے روح اگر قوم تو پھر تن ہے وطن
یہ جان لینا ضروری ہے کہ ہم نے ایٹمی قوت بننے کی ضرورت کیوں محسوس کی ؟ بھارت جو ہمارا ازلی دشمن ہے اس نے ارض پاک کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ وہ اسے نقصان پہنچانے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ اُس کا ایٹمی انرجی کمیشن تو 1946 میں قائم ہو گیا تھا جبکہ پاکستان نے 1971 کے بعد ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا ارادہ کیا، جب بھارت نے تمام بین الا قوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی افواج مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں اور پاکستان کو دو لخت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقت پاکستان کو احساس ہوا کہ دنیا میں اب جسکی لاٹھی اُسکی بھینس والا قانون ہی چلے گا۔
18مئی 1974 کو بھارت نے پاکستان کی سرحد سے محض 93 میل دور راجستھان میں پہلا تجربہ کیا تو ایسے حالات میں مکار و عیار دشمن سے محفوظ رہنے کی خاطر پاکستان نے بھی ایٹم بم کے حصول کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ اُس وقت کے وز یر اعظم ذو الفقار علی بھٹو نے جناب منیر احمد خاں کو یہ فریضہ سونپا۔ بعد میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی سربراہی میں کہوٹہ لیبارٹریز کا قیام عمل میں آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اقتدار جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں میں آیا لیکن ایٹمی پروگرام سرعت کے ساتھ جاری رہا۔ جبکہ 10 دسمبر 1984 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جنرل ضیا الحق کو لکھا کہ ہم بفضل خدا اس قابل ہوگئے ہیں کہ ایک ہفتے کے نوٹس پر ایٹمی دھما کے کر سکیں۔ لیکن پاکستان نے ایک پرامن ملک ہونے کے ناطے قوت حاصل کر لینے کے باوجو د اس کا اظہار نہیں کیا جبکہ بھارت نے 11مئی1998 کو پوکھران کے مقام پر تین ایٹمی دھماکے کئے۔ پھر دو روز بعد 13 مئی کو مزید دو دھماکے کر دیے۔ توسیع پسندی اور علاقائی بالا دستی پر یقین رکھنے والی بھارتی سرکار کا یہ اقدام خطرے سے خالی نہ تھا۔ دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بننے کے ساتھ ہی بھارتی حکمرانوں کا لب ولہجہ رعونت و تکبر کا مظہر ہو گیا۔ پاکستان کو لائن آف کنٹرول پر بڑے پیمانے پر کاروائی کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ کشمیر کاز کو یکسر بھلا دینے کے مشورے دئیے جانے لگے۔ جبکہ آزاد کشمیر پر بھی قبضہ کرنے کے ارادوں کا اظہار کیا جانے لگا۔ اب یہ ضروری ہو گیا تھا کہ جوابی کاروائی کی جائے اور بتا دیا جائے کہ پاکستان بفضل خدا ایٹمی قوت ہے اور اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے۔ طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر ہمیں کمزور سمجھنے کی غلطی کرتے ہوئے ہمارے خلاف جارحیت کا ارادہ بھی نہ کیا جائے۔
پاکستان میں اُس وقت میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ اب مغربی ممالک کا ضمیر بھی جاگ اٹھا جو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے موقع پر سویا ہوا تھا۔ پاکستان کو سمجھایا، بجھایا، لبھایا اور ڈرایا گیا۔ تمام قرضے یک جنبش قلم معاف کر دینے کی نوید سنائی گئی۔ ایف سولہ طیاروں کی پیش کش کی گئی۔ بین الاقوامی پابندیوں سے ڈرایا گیا۔ لیکن پاکستان نے اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید اور اپنی قوم کے جذبہ ایمانی پر بھروسہ کرتے ہوئے ملک کے دفاع اور سلامتی کے لئے ایٹمی دھماکہ کو ضروری سمجھا۔ لہذا 26 مئی کو ایٹمی سائنس دانوں کو Go Ahead کا سگنل دے دیا گیا۔ فخر پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمرمبارک مند اور انکی پرعزم اور جذبہ حب الوطنی سے معمور ٹیم اسی لمحے کے انتظار میں تھی۔ بے قرار جذبے بھڑک اٹھے، ذہن اور روح میں بجلی کوند گئی اور تاریخی لمحہ آگیا جب ان عظیم انسانوں نے اپنی محنت اور مہارت اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کرنا تھی۔ وزیر اعظم پاکستان کو مکمل تیاری سے آگاہ کر دیا گیا اور اب معاملات صرف ایک ہاں کے منتظر تھے۔
28 مئی کی مبارک صبح طلوع ہوئی۔ ریڈ الرٹ آن ہوا۔ پاک فضاؤں کو فضائیہ کے ایف 16 طیاروں نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ زمین پر نصب میزائیلوں پر سے کور ہٹا دیئے گئے۔ زمینی اور بحری افواج نے اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں۔ تین بچ کر سولہ منٹ پر وز یر اعظم پاکستان نے بٹن دبا دیا۔ بلوچستان میں چاغی کے پہاڑوں پر دن ایٹمی دھماکوں سے مزید روشن ہو گیا۔ تجربے کامیاب ہو گئے۔ ان بموں کی روشنی نے پر پاکستانی کی پیشانی کو فخر سے روشن اور سربلند کر دیا۔ ہر پاکستانی تو کیا، ہر مسلمان کا سینہ احساس قوت سے پھیل گیا۔ ناقابل تسخیر دفاع کا خواب پورا ہو گیا۔ بھارت اور اُسکی حواری دنیا کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ پورے عالم اسلام میں جشن کا سماں تھا۔ لوگ خوشی کے مارے گھروں سے نکل آئے، ایک دوسرے کو مبارک باد دیں اور شکرانے کے نوافل ادا کئے۔
مسجد اقصیٰ کے خطیب نے پاکستان کو مبارکباد دی اور یہ تاریخی جملہ کہا ” آپ کی یہ قوت پاکستان کی نہیں، سارے عالم اسلام کی قوت ہے”۔
یہ تاریخی جملہ لکھتے ہوئے دل احساس ندامت سے پھٹا جاتا ہے کہ آج ایٹمی قوت کی حامل یہ مملکت غیر مسلموں کی محتاج ہے۔ اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لئے انہی کی مقروض بو چکی ہے جو اسکی ایٹمی صلاحیت سےخوفزدہ تھے۔ اسکی کیا وجہ ہے ؟ میرے نزدیک اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو بھلا دیا ۔ ہم نے لا الہ الا اللہ کے نام پر یہ ملک حاصل کیا تھا اور اس میں اس کلمہ کا نظام نافذ کرنے کا اللہ تعالی سے وعدہ کیا تھا، جو 75 سال گزر جانے کے بعد بھی پورا نہیں کیا۔
اب بھی وقت ہے آئیے یوم تکبیر کے موقع پر ایک بار پھر عزم کریں کہ ایسی صالح، دلیر اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار قیادت منتخب کریں گے جو پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی اہل ہو۔ ایسی باصلاحیت قیادت وہی ہو سکتی ہے جو ملک میں نظام اسلام نافذ کرنے کا عزم رکھتی ہو۔ بلاشبہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام ہائے زندگی تو نا کام ہو سکتے ہیں لیکن خدائی نظام زندگی کی کامیابی یقینی ہے ۔ آئیے اس یقینی کامیابی کی طرف قدم بڑھائیں ۔ وہ قادر مطلق ہمارا ہاتھ تھام لے گا، راہ راست کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے گا اور ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔ حرف آخر کے طور پر صرف اتنا عرض کروں گی
تہذیب حکومت کا ذریعہ بن کر
ترویج اُخوت کا ذر یعہ بن کر
ہے منزل انساں کا منور رستہ
اسلام ہدایت کا ذریعہ بن کر