چین نے اعلیٰ معیار کی نیچرل سائنسی تحقیق میں پہلی بار امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور 2022 میں ٹاپ جرنلز میں شائع ہونے والے مقالوں میں چین پہلے نمبر پر رہا ہے۔نیچر انڈیکس کی جانب سے 82 جرائد کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق گزشتہ سال جنوری سے دسمبر کے دوران چین کا شیئر 19 ہزار 373رہا جبکہ امریکہ کا حصہ 17 ہزار 610 تھا۔نیچر انڈیکس باقاعدگی سے بین الاقوامی سطح پر معروف سائنس اور ٹیکنالوجی پبلشنگ ادارے ”اسپرنگر نیچر گروپ” کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔ یہ 82 معتبر جرائد میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں پر نظر رکھتا ہے، اور متعلقہ اداروں، ممالک یا خطوں کی جانب سے شائع ہونے والے مقالوں کی مقدار اور تناسب کی بنیاد پر عالمی اعلیٰ معیار کی تحقیقی کاوشوں اور تعاون کی عکاسی کرتا ہے.ان 82 اعلیٰ معیار کے جرائد میں چار شعبوں لائف سائنسز، فزیکل سائنسز، ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز اور کیمسٹری جیسے سیل، نیچر، کیمیکل کمیونیکیشنز اور فزیکل ریویو لیٹرز شامل ہیں۔
چین اور امریکہ کے علاوہ، جرمنی، برطانیہ اور جاپان اعلیٰ معیار کی نیچرل سائنسی تحقیق میں سرفہرست پانچ شراکت داروں میں شامل ہیں. بھارت 10 ویں نمبر پر ہے، جس سے یہ اور چین ٹاپ 10 فہرست میں صرف دو ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔2014میں پہلی بار نیچر انڈیکس متعارف کرائے جانے کے بعد سے چین کا شیئر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ 2021 میں فزیکل سائنسز اور کیمسٹری کے شعبوں میں سرفہرست ملک تھا۔ رواں سال اپریل میں لیے گئے ڈیٹا بیس کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے پہلی بار ارضیاتی اور ماحولیاتی سائنس میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔گزشتہ سال کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چینی اداروں نے ان جدید جرائد میں شائع ہونے والی تحقیقی کاوشوں میں ایک
منفرد کامیابی حاصل کی ہے۔مجموعی طور پر 19 چینی اداروں اور یونیورسٹیوں نے دنیا کے سرفہرست 50 تحقیقی اداروں میں جگہ بنائی، جس میں چائنیز اکیڈمی آف سائنسز سرفہرست ہے۔چین کی پانچ یونیورسٹیاں بھی ٹاپ 10 میں شامل ہیں۔ ان میں چین کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، نان جنگ یونیورسٹی، پیکنگ یونیورسٹی اور سنگھوا یونیورسٹی شامل ہیں۔نیچر انڈیکس کے مطابق 2010 کی دہائی کے وسط سے مقالوں کی تعداد اور معیار دونوں کے نقطہ نظر سے عالمی سائنس کے ”قومی توازن میں تبدیلی” آئی ہے۔ نیچر انڈیکس کے مطابق 2018 میں امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق چین نے سب سے زیادہ مقالے شائع کیے ہیں۔
تحقیقی شعبے میں چین کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ملک میں سائنس دوست رویے ہیں جن کی بنیاد پر حالیہ برسوں میں چین نے اس شعبے میں بے مثال کمالات حاصل کیے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ چین کی سائنس و ٹیکنالوجی نے گزشتہ ایک دہائی میں تاریخ کی کسی بھی دوسری دہائی کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کی ہے۔اس عرصے کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی تاریخی پیش رفت ”جامع تو ہے ہی” مگر اس کی بدولت آج چین اختراعات کی نمایاں ترین اقوام اور عالمی اختراعی نظام کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں چین کی تیز رفتار ترقی کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے وہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر مسلسل توجہ دینا ہے۔ حالیہ برسوں میں چین نے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ ملک نے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئیمستقبل کے لئے ایک جرات مندانہ نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے۔
چین کے نزدیک ملک کی آئندہ ترقی کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا فروغ، انوویشن کی بنیادی قوت محرکہ ہے اور پالیسی سازی میں جدت طرازی کو قومی ترقیاتی حکمت عملی کے مرکز میں رکھنا ہوگا۔چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ملک کو تکنیکی خود انحصاری کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کوپیداواری صلاحیت میں تبدیل کرنے میں تیزی لانی چاہئے۔ اس کی عکاسی چینی حکومت کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے آر اینڈ ڈی نظام کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوششوں سے ہوتی ہے۔اس ضمن میں چین نے سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کاروباری اداروں کی طاقت کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔قابل زکر امر یہ ہے کہ آر اینڈ ڈی کے حوالے سے مجموعی سرمایہ کاری کا تقریباً تین چوتھائی کاروباری اداروں نے فراہم کیا ہے۔ مختلف انٹرپرائزز نے قومی نوعیت کے 79 فیصد اہم تحقیقی منصوبوں میں حصہ لیا ہے اور مالی معاونت فراہم کی ہے، یوں مستقبل کے تقاضوں کے عین مطابق ملک کو سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی جانب تیزی سے لے جایا جا رہا ہے۔