کہاں سے لاؤں وہ تنکے آشایانے کے لیے
کہ بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
ہماری پچھتر سالہ تاریخ میں چند قابلِ فخر دنوں میں سے ایک یہ بھی ہے جب ڈاکٹر عبد القدیر خان نے دن رات ایک کر کے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا پھر ہم اس قابل ہوئے کہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکیں جس نے مادر وطن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اسکی آنکھ پھوڑ دیں گے، اس کی طرف اٹھے ہوئے ہاتھ توڑ دیں گے، اسکی طرف بڑھے ہوئے قدم کاٹ دیں گے۔
یومِ تکبیر مایوسی میں ڈوبی ہوئی اور دشمن کی چالوں سے آزردہ قوم کے لیے نغمہ جانفزا ثابت ہوا۔ اس دن سے پہلے ہر رات خوف کی رات، ہر دن غم کا دن تھا۔ بھارت کبھی سرحدوں پر بمباری کرتا تو کبھی لین دین اور تجارت روک کر معاشی ابتری پیدا کرنے کی کوشش کرتا، کبھی دریاؤں کا پانی روک کر قحط کی صورت پیدا کر دیتا تو کبھی پانی کھول کر سیلاب برپا کر دیتا۔ سرحدوں کی بمباری کے زخم خوردہ، پانی میں ڈوبے بے بس اور خشک سالی سے آزردہ لوگوں کے لیے ڈاکٹر عبد القدیر خزاں میں بہار کا پھول بن کر آئے۔ پریشان حال مادر وطن کی ایک پکار پر لبیک کہنے والے ڈاکٹر صاحب نے سر زمین پاک پر قدم رکھنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بے سروسامانی کے عالم میں کہوٹہ لیبارٹریز کا قیام ممکن بنایا۔ وہ اپنا بہترین اسٹیٹس ہالینڈ میں چھوڑ آئے اپنی کشتیاں جلا آئے اپنا شاندار حال وطن کے روشن مستقبل پر قربان کر دیا۔
اپنے سائنس دانوں کی ٹیم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے بارہ بارہ گھنٹے لیبارٹری میں کام کیا، دن رات ایک کر کے، کم وسائل کم پیسے کم تنخواہ کیساتھ اپنی محنت جاری رکھی۔ جذبے سلامت اور عزم بلند ہو تو معجزے بھی ہوا کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک دن 28 مئی 1998 اس مادر وطن کی روشن صبح بن کر آیا۔ بلوچستان کی سر زمیں تھی، چاغی کا پہاڑ تھا، پہاڑ کے اندر ایٹم بم نصب تھا۔ میلوں دور کیمرے لگائے ڈاکٹر صاحب، سائینس دانوں میڈیا اور وزرا کی ٹیم کیساتھ ایٹمی تجربہ کرنے کو تیار کھڑے تھے۔ سب تیاریوں سے مطمئن ہو کر ہاتھ کے انگوٹھے سے مثبت اشارہ کیا گیا ، دھڑکتے دل کیساتھ بٹن دبایا گیا۔ چند منٹوں بعد زمین میں ارتعاش پیدا ہوا، کیمرے تھرتھراتے لگے، الارم بجنے لگے، پہاڑ کی رنگت سفید پڑ گئی اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کیساتھ فضائیں بھی تھرتھراتے لگیں۔ اور زبان حال سے کہنے لگیں، دشمنو تم نے یہ کس قوم کو للکارا ہے۔
اس دن کے بعد دشمن سنبھل کر رہنے لگا ہے۔ سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ وہاں موت کی سی خاموشی چھا گئی ہے۔ اور ہم سکوں کی نیند سونے لگے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ذندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ ایک ایسا مینارہ نور تھے جو بھٹکی ہوئی قوم کو راہ دکھا گئے ہیں، جو سوئی ہوئی قوم کو جگا گئے ہیں اور اس کو خودی وخود داری کا درس دے گئے ہیں۔ جو کمزور قوم کو ہر محاذ پر لڑنا اور دفاع کرنا سکھا گئے ہیں۔ وہ جو دیا روشن کر گئے اس کو آگے جلائے رکھنا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس دیے کی لو کبھی کم نہ ہونے دیں۔ اس مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کرنے سے دریغ نہ کریں۔
آخر میں ڈاکٹر عبد القدیر کو ان اشعار کی صورت خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ
وہ اور ہی ہوں گے کم ہمت
جو ظلم و تشدد سہہ نہ سکے
شمشیر و سناں کی دھاروں پر
جو حرفِ صداقت کہہ نہ سکے
اک جذبِ حصولِ مقصد نے
یوں حرص و ہوا سے پاک کیا
ہم کفر کے ہاتھوں بِک نہ سکے
ہم وقت کی رَو میں بہہ نہ سکے
تھے ہم سے زیادہ طاقت وَر
پر چشمِ فلک نے دیکھا ہے
توحید کا طوفاں جب اٹھا
وہ مدِمقابل رہ نہ سکے