پاکستان ایک مقدس دھرتی ہے کیونکہ اس میں ہزاروں شہداء کا مقدس لہو شامل ہے۔ یہ اللہ کے سپاہی وطن کی حفاظت کرتے ہوئے آئے روز اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں۔ تبھی تو یہ ملک قائم ہے اور ہم بھی سلامت ہیں ورنہ دشمن کب کا ہمیں تر نوالہ سمجھ کر نگل چکا ہوتا۔
ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد اگر ملک وملت کا کوئی محافظ ونگہبان ہے تو وہ ہماری مایہ ناز پاک فوج ہے جس کی موجودگی میں ہم اور ہماری اولادیں وجائیدادیں محفوظ ومامون ہیں۔ وہ آنکھیں جو جوریاست کے تحفظ کے لیے جاگتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہیں۔
چند روز قبل وطن عزیز میں ایک سیاسی پارٹی کے ورکرز کی طرف سے شہدا ء کی یادگاروں ،انکے مجسموں اور تصاویر کی بے حرمتی کی گئی جو کہ ایک تکلیف دہ امر ہونے کے ساتھ باعث شرمندگی بھی تھا ،کہ وہ عظیم لوگ جنہوں نے اس وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے دے دئیے ہم کو انکا مشکور وممنون ہوچاہیے تھا مگر افسوس کہ چنداقتدار کے پجاری سیاست دانوں کے جھوٹے پراپیگنڈے میں آکر اپنے محافظوں اور وطن پر قربان ہونے والوں کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کا حصہ بن بیٹھے ہیں۔
کیپٹن کرنل شیرخان شہیدؒ کے مجسمے کا کیا قصور تھا ؟ کہ جس کی بہادی اور شجاعت کا تو دشمن معترف تھا اور ہے۔ یہ بات ناقابل یقین ہے بہت کم ایسادیکھنے کو ملا ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی داد دے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ فلاں فوجی (جوان) کی بہادر کی قدر کرنی چاہیے، مگر ایسا ہوچکا ہے 1999ء کی کارگل جنگ کے دوران ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیرخان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ کی کہ مخالف بھارتی فوج نے بھی ان کی شجاعت کا اعتراف کیا۔ اس لڑائی کی کمانڈ سنبھالنے والے بر یگیڈیئر ایم ایس باجوہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کی بہادری کا قائل ہوچکا تھا، میں 71ء کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں ۔میں نے کبھی اتنا بہادر، نڈر انسان نہیں دیکھا۔
وہ بڑی بے جگری سے لڑا، اور شہید ہوگیا۔ حملے کے بعد ہم نے وہاں تیس پاکستانی فوجیوں کی لاشوں کوعزت کے ساتھ دفنایا۔ لیکن میں نے اپنے پورٹرز بھیج کراس شیرجوان کی لاش کو نیچے منگوایا اور ہم نے اسے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں رکھا۔ جب تلاشی لی گئی تو علم ہوا اس جوان کا نام کپتان کرنل شیرخان تھا، واقعی ہے شیر تھا ۔جب کیپٹن شیر خان کی لاش واپس کرنے کا موقع آیا تو میں انکی جیب میں کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر میں نے لکھا تھا :12این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری سے لڑے اور انہیں انکا حق دیا جانا چاہیے۔ بریگیڈئیر باجوہ کہتے ہیں کہ جب مجھے علم ہوا کہ کیپٹن کرنل شیر خان کو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ سے نوازا گیا ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ دشمن بھی خاندانی ہو چاہیے دشمن تھا مگر خاندانی تھا۔
آج اپنے ہیں مگر غدار اور منافق ہیں جو کام دشمن نہ کرسکا وہ اپنوں نے کردیا۔ افسوس صدافسوس۔ کیپٹن کرنل شیر خان ہم شرمندہ ہیں کہ ہم آپکی دی ہوئی قربانی کی قدر نہ کرسکے۔ اس کیپٹن کرنل شیر خان شہید ؒکے مجسمے کا کیاقصور تھا ؟ یہی کہ وہ اللہ کا سپاہی پانچ دن بھوکے پیاسے رہ کر اپنے ملک وقوم کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگئے، اور قوم کو حیات بخش گئے۔یہ حقیقت ہے کہ جو قومیں اپنے محسنوں کی قربانیوں کو بھلادیتی ہیں پھر ذلت ورسوائی انکا مقدر بن جاتی ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ، کورکمانڈر ہاؤس پرحملہ ، پشاور ریڈیو پاکستان کی عمارت پر حملہ، آگ لگانا، ایمبولنس کو روک مریض اتار کر ایمبولنس کو آگ لگانا، مسجد کو نذر آتش کرنا، جناح ہاؤس کو آگ لگانے کا مقصد اس ملک میں انتشار پیدا کرنا اور اپنی ہی عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف کھڑا کرنا اور دشمن کے ناپاک ارادوں کی تکمیل کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ پاکستان کی تاریخ میں 9مئی ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
یہ کیسی محب وطن سیاسی جماعت ہے کہ اپنے چند حواریوں کو اپنوں کے ہی خلاف بغاوت پر اکسارہی ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے۔ یہ دشمن کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں یہی کہ وہ انکی سہولت کاری کا فرض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ کبھی امریکہ پر حکومت گرانے کا الزام تو کبھی سابق آرمی چیف سمیت تمام افواج کو نشانہ بنانا یہ اقتدار کے نشے کی آخری حد نہیں تو اور کیا ہے؟۔
ایک اور اہم بات خود کو ملک کی سب سے بڑی محب وطن سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والے پی ٹی آئی نے ملک کے اندر بے ادبی اور فحاشی کلچر کو آخری حد تک فروغ دیا ہے۔ جس طرح مولانا فضل الرحمن جیسے سیاسی بصرت رکھنے والے علماء کو غلط نام سے پکارنا اور اپنے جلسوں میں نیم عریاں ڈانس، اپنی زوجہ محترمہ کو پردوں میں رکھنا اور قوم کی بیٹیوں کو سڑکوں پر نچوانا، پتہ نہیں کہ یہ قوم کب سمجھے گی؟۔
بہرحال قومی املاک(اور شہداء کی یادگاروں) کو نقصان پہچانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کا دائر ہونا بہت اچھا اقدام ہے، ہم اپنی پاک فوج کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔ ایسے قومی مجرموں کو قرار واقعی سزادی جانی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی غدار میرے ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے.