میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو بہاولپور میں پایا۔ یہ وقت واقعی حسین ہوتا ہے کہ جب ہر کوئی آپ کو کندھے پر اٹھاتا ہے، بہن، بھائی نکھرے برداشت کرتے ہیں اور والدین کی گویا اکلوتی محبت بس ہم ہوتے ہیں۔ بہاولپور کے ریتیلے ٹیلوں سے کھمبیاں تلاش کرکے لانا یا پھر دور تک ریت میں کھوجانا، بڑوں کی ڈانٹ و فکر یہ انہیں یادوں کا حصہ بن گئی اور ہم نوابوں کے شہر میں نوابوں والی زندگی بسر کرکے آگے نکل گئے لیکن شہر پیچھے رہ گیا۔
جنوبی پنجاب کے شہروں میں بہاولپور کو ایک الگ ہی مقام حاصل ہے۔ یہاں کی آب و ہوا سے لے کر لوگوں کے رویوں تک سب ہی مختلف ہے۔ دن کو جس تیزی سے گرمی ہوتی ہے رات کو اسی تیزی سے یہاں موسم خوشگوار ہوجاتا ہے۔ ریتلے لوگوں کا مزاج بھی ریت کی ماند ہوتا ہے۔ جو ہاتھ سے ایسے پھسلے کہ معلوم ہی نہ ہو اور ہلکی سی دھوپ پڑے تو تب جائے اور چاندنی پڑے تو ٹھنڈیا جائے۔جس کی زیادہ محبت انسان کو سراب میں لاکھڑا کرے، دور سے پانی اور قریب سے خشک ریت۔۔ جس میں جتنا گہرے ہوں اتنا کھوجائیں اور پھر نامعلوم مقام کی جانب اپنی موت کے منتظر رہیں۔ایسا کچھ یہاں کے صحرا کی خاصیت ہے اور پھر ریت مزاجوں کو بھی اپنی طرح بنا دیتی ہے۔
اس شہر پر نوابوں نے اپنا کرم کیا ہی ہے مگر بعد ازاں کچھ شہری انتظامیہ نے بھی اسے خوب سجایا سنوارا ہے۔ شہر گویا ایک جنت کا گماں دیتا ہے۔ کشادہ سڑکیں، ہریالی، مخصوص مقامات پر تاریخی مجسمے اور ماضی کی یادوں کی حفاظت کا قابل تعریف اہتمام یقینا آنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔تعلیم کی خدمت کرتا یہ شہر، صحت کے اصولوں پر پابند علم و ہنر کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ سیاحت بھی ہے، ادب بھی ہے، مقامی ہنر بھی ہے اور بیرونی رکھ رکھائو بھی سب کچھ ہی تو ہے اس شہر نواباں میں پھر کمی کس چیز کی ہے، دیکھا جائے تو نوابوں کی کمی بھی یہاں نہیں ہے اور شاید اس شہر کی خرابی قسمت کی وجہ زیادتی نواباں ہے۔ جدی پشتی نواب تو نواب ہوتا ہے مگر خود ساختہ نوابوں سے محلات تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس شہر کی ہڈیوں میں اب نوابی بخار گھس چکا ہے۔
کراچی کو ہمیشہ شکوہ رہا ہے کہ اس شہر کو بیرونیوں نے بہت نقصان پہنچایا، یہ بات بالکل درست ہے، لیکن نااہلی بھی اس شہر کے باسیوں کی ہے جب کوئی کام نہیں کریں گے تو باہر سے کوئی تو آئے گا۔ یہی سب کچھ بہاولپور کے ساتھ ہوا، اس شہر نے تعلیم کی کرنیں پھیلائیں تو سمیٹنے والے بھاگے چلے آئے۔ اس شہر نے صحت دی تو ضرورت مند خود کو روک نہ پائے۔ مگر یہی مسئلہ رہا ہے کہ “تم شہر اماں کے رہنے والے درد ہمارا کیا جانو” جو دور سے آیا، اس نے خود کو مہمان سمجھا اور پھر چلتا بنا۔ شہر ایک سرائے کی حیثیت اختیار کرگیا۔یہاں کے لوگوں نے اپنے لاابالی رویے کی وجہ سے اپنی قدریں کھو دیں، غیر سنجیدگی کی وجہ سے پورے جنوب کی نمائندگی کھو بیٹھے اور حق ادا کرنے کے بجائے خود بھی اسی صف میں کھڑے ہوگئے۔ یہ شہر اقدار بنتا اور یہاں کے لوگ تعلیم و صحت کی طرح حقوق کے طالب بن کر آتے مگر یہاں بکاؤ مال کی کمی نہ رہی اور کھڑے ہونے والے خود ہی بھیڑ کا حصہ بن گئے۔شہر کی فصیلیں نظریاتی طور پر کمزور ہوگئیں اور اب بہاولپور چوروں، دھوکے بازوں، فراڈیوں اور غیر افراد کی آماجگاہ ہے۔
مجھے افسوس ہے صد افسوس ہے۔ جس شہر کو میں نے زمانہ امن میں چھوڑا تھا بعد ازاں جب جب دیکھا مجھے دکھ ہوا۔ گلیاں، عمارتیں، محلات، سڑکیں اور تاریخ کے اوراق شکوہ کناں ہیں، اداس ہیں کہ ان کو کوئی قدردان نہ ملا پھر سے۔آہ! بس دولفظ کہنے تھے یہاں کے رہنے والوں سے، کراچی کے بعد میرا دوسرا عشق بہاولپور ہے خدا کے لیے اس کی قدر کریں، مہمان نواز بنیں، عزت کرنا سیکھیں، اخلاق پیدا کریں، اجنبی کو مقام دیں، دھوکے، فراڈ اور دوغلے رویے ترک کریں۔ یہ مقام بہت اہمیت کا حامل ہے، یہ جغرافیائی اور وسیب کی سرحد ہے اس کا بہت خیال رکھیں۔