بانو ! حاجرہ کچھ پریشان لگ رہی ہو؟ کیا بات ہے گھر میں تو سب ٹھیک ہے؟
حاجرہ ( ہچکچاتے ہوئے) مجھے لگتا ہے چاچا نے نجیب سے میری شادی زبردستی کروائی ہے، وہ میرا مطلب ہے کہ نجیب مجھ ان پڑھ لڑکی،، اس میں میرا کیا قصور ہے،
بانو ! اچھا، کیا نجیب نے تم سے کوئی ایسی بات کی ہے؟
حاجرہ ! اس کا رویہ، شادی کو تین مہینے گزر گئے ہیں اس نے کبھی مجھ سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی،
بانو کی والدہ (جو دوسرے کمرے سے اسکی بات سنتی ہوئی باہر آئی) حاجرہ تمہارا چچازاد ایک پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا نوجوان ہے، وہ تم سے جیسا چاہتا ہے تم ویسی بن جاو وہ تمہیں کبھی برائی کی طرف نہیں لے جائے گا اسکا بچپن ہمارے سامنے گزرا ہے۔
حاجرہ ! ویسی بن جاوں؟
بانو کی والدہ ہاں بیٹا تمہارا شوہر ایک پڑھا لکھا شریف جوان ہے لیکن اس کی بھی کچھ خواہشات ہوں گی کہ اس کی بیوی پڑھی لکھی اس کے ہم خیال ہو،
حاجرہ ! لیکن خالہ آپ بتائیں اس میں میرا کیا قصور، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں ارہا ہے۔
خالہ ! تم اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرو،
حاجرہ ! میں کیسے بدلوں، نجیب کی دونوں بڑی بہنیں جب آتیں ہیں تو میری اتنی بے عزتی کرتی ہیں میرے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا تک نہیں کھاتیں، میں تو اسی گھر میں پلی بڑی ہوں، پھر یہ سب میرے ساتھ ایساکیوں ہورہا ہے۔
بانو کی والدہ، بیٹا اپنے آپ کو مضبوط کرو ایک مضبوط عورت ہی ایک مستحکم گھرانے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ شوہر کی خواہش کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرو اپنے آپ کو بنا سنوار کر رکھو گی تو ضرور شوہر کی توجہ بھی حاصل کر سکو گی، کل سے میں تمہیں قرآن پڑھانے اوں گی تم نے صرف ایک سپارہ پڑھ کر چھوڑ دیا تھا کوئی بات نہیں اب بھی تم پڑھ سکتی ہو قرآن پڑھوگی تو اردو پڑھنا تمہیں مشکل نہیں لگے گا۔
نجیب اپنے کاروباری سلسلے میں دوسرے شہر سے ایک مہینے کے بعد گھر لوٹا تھا، سب کے ساتھ سلام دعا کے بعد کمرے داخل ہوا تو حیران رہ گیا آج سے پہلے اس نے اپنے کمرے کو اس طرح سجا سنورا نہیں دیکھا تھا ابھی وہ اس حیرانی سے نکلا بھی نہیں تھا کہ حاجرہ کمرے سلام کرتی داخل ہوئی، آپ نہا دھوکر کپڑے بدل لیں ۔ اس نے ایک سرسری نظر بیوی پر ڈالی، صاف ستھرے لباس میں ہلکا سا میک اپ اسے یقین نہیں ارہا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جسے وہ بچپن سے برے حلیہ میں دیکھتا آرہا تھا۔
دسترخوان پر اس نے اپنا پسندیدہ لذیذ کھانا دیکھا تو بے اختیار کہا یقیناً یہ ساجدہ آپا آپ نے بنایا ہوگا، بڑی پھوپھو بھی وہاں موجود تھیں انہوں نے جب یہ کہا کہ کھانا حاجرہ نے بنایا ہے تو اسے یقین ہی نہیں آیا آج اسے حاجرہ بالکل ایک نئے روپ میں نظر آئی۔
حاجرہ کا اپنے آپ کو بدلنا اس گھر کی بقا اور تحفظ کے لیے ہی ضروری نہیں ہوا بلکہ اسکے اپنے تحفظ کے لئے بھی نہایت ضروری تھا، شوہر کی توجہ ملی تو اسے سکون ملا اس نے شوہر کے ساتھ ساتھ تمام گھر اور گھروالوں کی خوشیوں کا خیال بھی رکھنا شروع کیا۔ کل تک سسرال میں جو اسکی مخالفت پر کمر بستہ تھے اس کے دوست بن گئے۔ نجیب خود تعلیم یافتہ تھا اس کی خواہش کے مطابق حاجرہ نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی ان پڑھ ہونے کے باوجود اس نے اپنا تمام وقت اپنے بچوں کی تربیت میں وقف کردیا خود بھی صوم و صلوۃ کی طرف راغب ہوگئی۔ نجیب کی سب سے بڑی پریشانی کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان پڑھ اور گنوار سی لڑکی اس کی اولاد کا نہ جانے کیا حال کردے گی۔
لیکن اب وہ اس طرف سے بالکل مطمئن تھا لہذا اس نے اپنے کاروبار کی طرف مکمل توجہ دینی شروع کی رب العالمین نے اس چھوٹے سے کاروبار میں برکت دی۔
کاروبار میں ترقی ہوتی گئی اورنجیب کے دل میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ بھی بڑھتا گیا ان کاموں میں بھی حاجرہ شوہر کے ساتھ کھڑی تھی غرض کہ اس ان پڑھ کمزور عورت نے اپنے آپ کو مضبوط کرکے اپنے کنبے کو استحکام بخشا جس کی وجہ سے اسکا شوہر بھی اس پر فخر کرنے لگا اسے دیکھ کر یقیناً ہر ایک کی یہی رائے ہوگی کہ عورت مضبوط ہوکر اپنےماحول میں نہ صرف تبدیلی لا سکتی ہے بلکہ اپنے تحفظ کے لئے بھی سازگار ماحول استوار کر سکتی ہے ٹھنڈی چھاؤں بھی بن سکتی ہے۔