ایک مریض جو بیک وقت کئی مختلف امراض میں مبتلاء ہو اوراسکے امراض کی تشخیص بھی ہوجائے توطبیب یقینا ایک ایک کر کے مرض کا علاج شروع کرے گا کیونکہ بیک وقت ایک سے زیادہ امراض کا علاج مریض کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ، دوسری صورت میں ایک قابل طبیب ایک ایسے مرض سے علاج شروع کرتا ہے جس سے بل واسطہ یا بلا واسطہ دوسرے امراض میں بھی آرام آنا شروع ہوجاتاہے ۔ ایک اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ مریض طبیب کیساتھ کتنا تعاون کرتا ہے کیونکہ اگر مریض تعاون نہیں کرتا تو طبیب کی محنت کے رائیگاں جانے کا قوی امکان موجود رہتا ہے، ناصرف طبیب بلکہ قرابت داروں کی بھاگ دوڑ بھی، جس کی وجہ سے مریض کو جان سے ہاتھ دھونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
یہاں جو غور طلب باتیں ہیں ان کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں سب سے پہلے مریض کو اپنے مرض سے آگاہ ہونا پھر طبیب پر بھروسہ ہونا اگر یہ بھروسہ قائم نہیں ہوپاتا تو کچھ قرابت دار یہ بھروسہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں پھر وسائل کا دستیاب ہونا اس طرح سے ایک طے شدہ عمل سے علاج شروع کیا جاتا ہے اور طبیب اور اسکے عملے کی محنت و لگن کے ساتھ ساتھ مریض کی بھرپور معاونت کی وجہ سے صحتیابی ممکن ہوپاتی ہے۔ دورانِ علاج مریض کو کمزوری بھی لاحق ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ دواؤں و دیگر اشیاء اور سب سے بڑھ کر قدرت کی رضامندی سے مکمل صحتیابی ممکن ہوجاتی ہے۔ مریض کو پرہیز بتائیں جاتے ہیں ادویات دی جاتی ہیں جن کی مدد سے زندگی کی گاڑی رواں دواں ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
اس بات سے کسی پاکستانی کو کوئی اختلاف ہوسکتا ہے اور نا ہی کسی ادارے کو، کے پاکستان کو بیک وقت کئی خطرات نے گھیرے میں لیا ہوا ہے جس میں زیادہ تر خطرات داخلی ہیں کیوں کہ بیرونی خطرات ہماری دفاعی سرحد عبور کرنے کا سوچتے بھی نہیں ہیں اور اس کی وجہ ہمارے فوجی جوان ہیں جو سرحدوں پر ہر ہر لمحہ چوکنے کھڑے ہیں۔ اب داخلی خطرات کی طرف توجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں سب سے بڑا مسلہ انا کا ہے اور انا بھی انفرادی نوعیت کی ہے یعنی کوئی با اختیار اس بات کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو جواب دہ ہے جو کسی بھی لحاظ سے ممکن ہی نہیں ہے۔ آپ کسی ادارے سے واقف ہو ں تو آپ ایک بتائے گئے کام کرنے کے طریقہ کار سے کام کرتے ہیں اگر کچھ مختلف کرتے ہیں تو اسکے لئے آپ کو اپنے اوپر والوں کو بتانا پڑے گا کہ میں نےاس کام کو کرنے کا ایک نیا طریقہ سوچا اور سمجھا ہے ورنہ ادارہ آپ کو بغیر کسی تردد اور وضاحت کے فارغ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
ہر ادارہ سرکار کے بنائے ہوئے ضابطہ اخلاق کی کاروائی پر پورا اترنے کے بعد ہی وجود میں آتا ہے اور ہر ادارہ اپنے کام کے لئے باقاعدہ اور واضح حکمت عملی بمع کام کرنے کے محفوظ طریقہ کار کو واضح کرتا ہے اور ان کے لئے بہترین افرادی قوت کو استعمال کرتا ہے۔ ادارے اپنے دائرہ اختیار میں کسی قسم کی بیرونی دخل اندازی کو ہمیشہ نا پسند کرتے ہیں اور اسی طرح سے کسی اور ادارے کے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی شراکت سے باز رہتے ہیں یہاں تک کے کوئی مشترکہ مفاد واضح نا ہوجائے۔ ادارے افراد کی پشت پناہی کرنے لگیں یا افراد اداروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنے لگیں، سمجھ لیں اداروں نے بربادی کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے۔
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان ریلویز، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان بین الاقومی ائیر لائن کو کس طرح سے تباہی کے کنویں میں دھکیلا گیا، ان اداروں سے وابستہ بے تحاشہ چھوٹے چھوٹے ادارے جو ان اداروں سے منسلک تھے جہاں ہزاروں لوگ روزگار سے وابسطہ تھے آج ان میں سے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور جوبچے ہیں وہ اپنی بقاء کی جنگ میں برسرِ پیکار ہیں۔ یہ تین وہ بڑے ادارے جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے۔ ملک کی معیشت تو ایک زمانے سے لڑکھڑا رہی ہے اور اسے ٹھیک کرنے لئے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے کتنے ہی طبیب تبدیل کئے گئے ہیں جن میں سے کوئی کارگر ثابت نہیں ہوا ہے، لیکن تاحال زندگی بچانے والی ادویات کی طرح کبھی کسی سے اور کبھی کسی سے قرض لے کر سنبھالادیا جارہا ہے۔ جبکہ عوام کا اس بات پر بھی یقین ہے کہ اللہ کے نام پر لیا گیا ملک ہے اللہ توکل ہی چل رہا ۔
کہیں کوئی اداروں کو بچانے کیلئے پریشان ہیں تو کوئی افراد کے پیچھے مرے جا رہاہے اور پاکستان کسی اسٹریچر پر لیٹے ہوئے مریض کی طرح اپنے طبیب کے متوجہ ہونے کے انتظار میں تڑپ، سسک رہاہے۔ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ فوری طور پر ایک نقاطی منشور یعنی استحکام پاکستان پرایک جگہ بیٹھ جائیں اور پاکستان میں ایک ایسی فضاء قائم کریں جہاں اگلا لاءحہ عمل طے کریں۔ خاکم بدہن مریض نہیں رہا تو طبیب اور اسکے ورثا سب کی بھاگ دوڑ بیکار ہوجائے گی، اداروں کو اور افراد کو جو سیاسی رہنماء ہیں کسی ایک نقطے پر اتفاق کرنا پڑے گا اور وہ ہے استحکام ِ پاکستان جس کے لئے اگر کسی ادارے کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے تو ہٹ جائے ایسے ہی ہمارے سیاست دان وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی انا سے باز رہیں اور ملک کی خاطر حالات کو معمول پر لانے میں قلیدی کردار ادا کریں ۔ پاکستان کا مفاد ہم سب کا مشترکہ ہے اس کی بقاء کیلئے سوچیں، آج جتنے بھی ادارے اس نفسا نفسی کی زد میں ہیں ٹھنڈے اور غیر جانبداری کے روئیے پر آگے بڑھیں ۔ اداروں کا احترام ہی استحکام کی ضمانت ہے اور اداروں پر بھی لازم ہے کہ وہ پاکستان کو ایسی حالات کی طرف نا لے کر جائے جہاں کسی بڑے نقصان کا خدشہ لاحق ہو ۔ اللہ تعالی ہمارے حکمرانوں کو اس وطن ِ عزیز کو چلانے والوں کو ایسے فیصلے کرنے کی توفیق دے کہ جس سے ہمارا ملک واپس امن و سلامتی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔ آمین یا رب العالمین