جب سے میں نے ہوش سنبھالا، اپنی والدہ کو دیکھا جو کام کرتے ہوئے مجھے بھی ساتھ مصروف رکھتیں۔ انداز بیان ہمیشہ یہی ہوتا کہ “بیٹی! فارغ ہو تو فلاں چھوٹا سا کام کر لو۔
کام واقعی چھوٹا ہی ہوتا لیکن مجھے یہ لگتا کہ میری اماں مجھے کبھی فارغ نہیں بیٹھنے دے سکتیں۔ انہیں تو میرا آرام کرنا پسند ہی نہیں ہے۔
لیکن اس طرح ایک تو بچپن میں ہی اماں نے مجھے غیر محسوس طریقے سے گھر کے چھوٹے چھوٹے کام سیکھا دئیے۔
دوسرا انہوں نے مجھے اپنے سے قریب کر لیا جیسے وہ کچن میں کچھ بنا رہی ہوتیں تو مجھے بھی کچھ نہ کچھ کرنے پر لگا لیتیں اور باتیں بھی کرتی جاتیں کہ “آج اسکول کیسا رہا؟ دوست کیسی ہیں؟ آپ کی فلاں دوست آج آئی تھی؟ آپ نے کیا پڑھا؟” وغیرہ وغیرہ۔
اور میری بھی یہ عادت اتنی پختہ ہو گئی کہ میں جب تک اپنی ساری باتیں اماں سے شئیر نہ کر لیتی، مجھے سکون نہ ملتا۔
اکثر اپنی شرارتوں کا ذکر کرتی تو اماں اس وقت تو خاموشی سے سنتیں، پھر بعد میں سمجھاتیں کہ “دیکھو کوئی ایسا کام مت کرنا جس سے لوگ آپ کی عزت نہ کریں۔ عزت ایک بار چلی جائے پھر کبھی واپس نہیں آتی۔”
اور یہ بات اسی وقت سمجھ میں آبھی گئی کہ کوئی بھی ایسی بات یا ایسی حرکت جس سے کسی کی دل آزاری ہو، وہ اس کے دل میں آپ کی جگہ ختم کر دیتی ہے۔
اماں سے دوستی کا دور شروع ہوا تو اماں کو ناراض کرنے سے بھی دل ڈرنے لگا کہ انہیں کسی بات پر غصہ نہ آجائے۔ اس طرح سے اماں نے ہم سب بہن بھائیوں کو اپنے دوست بنایا۔
چونکہ اماں ہمیشہ دینی محفلوں میں جایا کرتی تھیں تو ہمیں بھی عموماً ساتھ ہی لے کر جاتیں کہ ابھی سے ان بچوں کی بھی عادت بن جائے۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی رہیں کہ بیٹیوں کو قرآن ترجمہ سے پڑھوایا اور بیٹوں کو حافظ بنایا الحمدللہ۔
اماں سے دوستی شادی کے بعد بہت کام آئی۔ ان کے آگے پیچھے رہنے کی اور ہر کام مشورہ سے کرنی کی عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ اپنی ساس میں بھی مجھے وہ چیز نظر آنے لگی کہ یہ بھی تو ماں ہی ہیں۔ اماں کی تربیت بھی یہی تھی کہ “ساس بھی ماں ہی ہوتی ہے۔ خبردار! اگر کوئی شکایت آئی ان کی طرف سے۔”
میری ساس جو وقت گزرنے کے ساتھ میری دوست بن گئیں، ان کو بھی میری سمجھ آگئی۔ آج میرے پاس گھر میں دوست موجود ہے جن کی اخلاص پر مجھے بالکل شک و شبہ نہیں ہے۔ اب کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو میں اپنی اماں کو فون کر کے نہیں بتاتی۔ بلکہ اپنی ساس سے مشورہ کرتی ہوں۔ اور وہ بھی مجھے اچھا مشورہ ہی دیتی ہیں۔
اگر کچھ وقت ایک دوسرے کو صبر و تحمل سے برداشت کر لیا جائے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آپ کو اچھے دوست ڈھونڈنے کے لیے گھر سے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
گزرے ہوئے وقت میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے یہ بات میں نے ضرور سمجھی ہے کہ ہر ساس ایک ماں بھی ہوتی ہے اور ہر بہو ایک بیٹی بھی ہوتی ہے۔ نہ تو ہر ماں اپنے بیٹے یا بیٹی کا گھر خراب کرنا چاہتی ہے، نہ ہی ہر وقت کا فساد انہیں اچھا لگتا ہے۔ لیکن ساس اور بہو کے رشتے میں ایک دوسرے کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔
ایک ماں کا بیٹی یا بیٹے کی زندگی میں سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔ ان کی تربیت پر ساری زندگی کی کامیابیوں کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر آج کی ماں موبائل پر مصروف ہے چاہے وہ کوئی مثبت کام کر رہی ہو یا منفی، بچے کو اس کے ہاتھ میں جو ہر وقت موبائل نظر آرہا ہے، وہ بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ماں کے پاس بچوں کے ساتھ دوستی کا وقت نہیں ہے تو وہ ان کی تربیت کیسے کرے گی۔
اپنا وقت بچوں کو دیجیے، انہیں اچھے انسان بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔ اپنی آواز اپنے بڑوں کے ساتھ باادب رکھیں، آپ کے بچے بھی ان شاءاللہ با ادب رہیں گے۔