امی میں شاہد بھائی کی شادی میں لہنگا پہنوں گی۔ آپ مجھے لہنگا بنا دیں نا! میں نے امی سے بڑی لجاجت سے کہا! امی نے کہا دیکھو بیٹا آج کل ہاتھ بہت تنگ ہے اور پھر میرے بھانجے کی شادی ہے تو شادی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں تحائف دینا شادی کی تقریبات میں آنا جانا تمام اخراجات مشکل سے پورے ہو رہے ہیں۔ میں نے کہا ! امی کل سب کزن نے یہی طے کیا ہے کہ سب شادی میں لہنگا پہنیں گے اگر میں نہیں پہنوں گی تو کتنا عجیب لگے گا نا! مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا اور ہاں بڑی پھپھو، چھوٹی پھپھو، چچی اور تائی امی سب ساڑھی پہنیں گے اور امی آپ بھی ساڑھی پہنیں گی۔ ساڑھی کا نام سن کر امی کی آنکھیں کچھ چمک اٹھیں میں سمجھ گئی۔ امّی تو اپنی وہی پسندیدہ ساڑھی پہنیں گی جسے انہوں نے بہت سنبھال کر دوہرے شاپر میں بند کرکے الماری میں رکھا ہوا ہے۔ مجھے امّی کی اس ساڑھی کو دیکھے ہوئے بھی کئی سال ہوگئے تھے کیونکہ امی نے وہ ساڑھی ایک یا دو مرتبہ ہی خاص موقعوں پر پہنی تھی۔ یہ سوچتے سوچتے میں سو گئی رات خواب میں بھی میں لہنگا پہنے سارے گھر میں گھوم رہی تھی۔ صبح اسکول جانے کی جلدی میں امی کو خواب بتانا بھول گئی ۔
اسکول سے واپس آئی تو گھر میں داخل ہوتے ہی امی کی سلائی مشین کی آواز آ رہی تھی میں امی کے پاس جانے کی بجائے صحن میں سے گزرتے ہوئے سیدھا باورچی خانے میں چلی گئی اور وہیں سے امی کو آواز دی۔ امی! بھوک لگی ہے کھانا دے دیں۔ امی میری آواز سن کر کمرے سے باہر آئیں ان کے لبوں پر مسکراہٹ چہرے پر خوشی اور آنکھوں میں چمک تھی اور ان کے ہاتھوں میں کوئی کپڑا تھا جو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ہاتھ اوپر کرتے ہوئے میرے سامنے لٹکادیا۔ لہنگا! اتنا خوبصورت میں نے نعرہ لگایا میری امی نے میرا لہنگا بنا دیا ہے۔ اتنی خوبصورت بیلیں لگائیں ہیں۔ لپک کر امی کے ہاتھوں سے میں نےوہ لیا میں وہ لہنگا اپنے جسم سے لگا کر پورے صحن میں گھوم رہی تھی۔
شادی والے دن ہم سب کزنز نے لہنگا پہنا ہوا تھا اور ان کی ماؤں نے ساڑھی پہنی ہوئی تھی مگر میری امی نے اپنی پسندیدہ ساڑھی نہیں پہنی تھی قمیض شلوار کا سوٹ پہنا تھا۔ سب کہ پوچھنے پر امی نے بتایا ۔ “میری کمر اور گھٹنوں میں تکلیف ہے میں ہیل والی سینڈل نہیں پہن سکتی اور اس کے بغیر ساڑھی خوبصورت نہیں لگتی ہے۔
اس وقت میری عمر 14 سال کی تھی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں میری شادی ہوگئی۔ میری شادی کے دو سال بعد امّی ابّا عمرہ کرنے گئے تو فرصت سے میکے میں رہنے کا موقع ملا۔ گھر میں چھوٹا بھائی تھا۔
آج میں نے سوچا اسٹور کی صفائی کر دیتی ہوں۔ اسٹور میں ایک کونے میں رکھا ہوا امی کا بکس کھولا تو کچھ جانا پہچانا سا کپڑا دکھائی دیا کپڑے کے اس ٹکڑے کے ساتھ بلاؤز اور پیٹی کوٹ لپٹے ہوئے رکھے تھے۔ یادوں کے دریچے کھولے تو لمحے بھر میں بات سمجھ میں آگئی کہ شاہد بھائی کی شادی پر، امی ساڑھی نہ پہننے کی وجہ کمر اور گھٹنوں میں تکلیف کیوں بتا رہی تھیں۔
بچپن سے بڑے ہونے تک اسکول کی کتابوں میں ماں کے بارے میں جو کچھ بھی پڑھا تھا ایک جھلک میں نظروں سے یوں گزر گیا کہ
یوں ہی تونہیں! جنت ماں کے قدموں تلے نہیں رکھ دی گئی۔
یوں ہی تو نہیں! فرما دیا گیا ماں باپ کو” اُف” تک نا کہو ۔
یوں ہی تو نہیں! قرآنی دعا نازل ہوگئی۔ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ۔
یوں ہی تو نہیں! ایک ماں نے بیاباں میں پیاس سے بلکتے ہوئے اپنے بچے کے لئے سعی کی اور زم زم کا چشمہ پھوٹ پڑا۔
یوں ہی تو نہیں! طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرما دیا گیا کہ اے موسیٰ ذرا سنبھل کر چلنا تمہارے لئے دعا مانگنے والے ہاتھ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
یونہی تو نہیں! حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو اتنا بڑا رتبہ دے دیا گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے اپنے لیۓ دعائیں منگوائیں۔
یوں ہی تو نہیں! دوران حمل انتقال کرجانے والی ماؤں کے لیے جنت لکھ دی گئی ہے ۔
مصیبتوں اور پریشانیوں کو ماں اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے یہ کوئی رسم و رواج یا ثقافت نہیں ہے بلکہ ساری دنیا میں ماں اور اولاد کے رشتے کی گہرائی ہے جسے کبھی ناپا نہیں جا سکتا۔ میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھی اور اپنی ماں کو عظیم ماؤں کی فہرست میں دیکھ رہی تھی۔ میں اپنی ماں کی لازوال محبت کو کسی بھی شے کیساتھ تول نہیں سکتی۔ اگر انہیں محبت بھری نظروں سے صرف دیکھوں بھی تو میرے رب کی طرف سے میرے لیے حج مبرور کے ثواب کا تحفہ ہے۔ یا رب مجھے اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔ آمین