کراچی کے چڑیا گھر میں کئی سالوں سے بچوں کو سیر کرانے والی ہتھنی ”نور جہاں” مرگئی۔ جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم فور پاز نے نورجہاں کی ہلاکت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہتھنی کو تالاب میں گرنے کے کئی گھنٹے بعد کرین کی مدد سے باہر نکالا گیا تھا جس کے بعد وہ کھڑی نہیں ہو سکی اور گذشتہ نو روز اس نے اپنا آخری وقت زمین پر لیٹ کر گزارا جو ہاتھیوں کے لیے جان لیوا صورتحال ہوتی ہے۔ پاکستان میں موجود ہاتھیوں کو 2009 میں افریقہ کے ملک تنزانیہ سے 40 ملین روپے کے عوض پاکستان لایا گیا تھا۔ جب ان کو پاکستان لایا جا رہا تھا تو اس وقت پاکستان اور پوری دنیا میں کہا گیا تھا کہ ایسا ظلم نہ کریں مگر پھر یہ قدم اٹھایا گیا۔ بہت سے لوگوں کے لیے شاید یہ کوئی خبر ہی نہ ہو ۔ ایک جانور ہی تھی کیا ہوا اگر مرگئی لیکن نجانے مجھے کیوں اس ہتھنی میں اپنا عکس نظر آرہا ہے۔ تھوڑا غور کریں آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ہم بالکل اس ”ہتھنی ” کے جیسے حالات کا شکار ہیں۔ بحیثیت قوم ہم ”نور جہاں” ہی تو ہیں ۔
ہم بھی ایک ایسے قید خانے میں زندگی گذار رہے ہیں جہاں شاید صرف اب سانس لینے کی آزادی میسر ہے۔ آئین، قانون، صحت، تعلیم سمیت دیگر بنیادی حقوق بھی ہمیں بس اتنے ہی میسر ہیں جتنے چڑیا گھر کی اس ہتھنی کو حاصل تھے۔ ہم بھی اس کی طرح نسل در نسل اپنے سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ، بیورکریسی اور جوڈیشری کا بوجھ اٹھاتے آرہے ہیں۔ اپنے کاندھوں پر سوار کرکے انہیں آسمان تک پہنچاتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کا پیٹ پالتے ہیں اور بدلے میں ایک ایسی زندگی پاتے ہیں، جہاں ہماری جان و مال کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ لو گ کہتے ہیں کہ ہتھنی ”نورجہاں” اس معاملے میں ہم زیادہ خوش نصیب تھی کہ کراچی میں رہتے ہوئے وہ اسٹریٹ کرمنلز سے تو محفوظ تھی کیونکہ یہاں کے شہریوں کا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ گھر کی چوکھٹ سے لے کر مسجد کے دروازے تک اور بینک کی اے ٹی ایمز کے اندر ہر جگہ لوٹے جارہے ہیں اورلٹیروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
اس کا کام لوگوں کا بوجھ اٹھا کر انہیں تفریح ہی فراہم کرنا تھا بالکل ایسے جس طرح ہم عوام اپنے آقاؤں کے لیے تفریح کا سامان بنے ہوئے ہیں ۔میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا ہے کہ جانوروں کو اس طرح چڑیا گھروں میںقید رکھنے سے انسان کی کون سی حس کو تسکین ملتی ہے۔ آزادی جس طرح ایک انسان کا حق ہے اسی طرح یہ ایک جانور کا بھی حق ہے۔ آپ کسی کو فطرت سے کس طرح دور کرسکتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو اس کا انجام ایسا ہی ہوگا جیسا ”نور جہاں” کا ہوا ہے اور اگر آپ کسی معاشرے میں ظلم کا نظام رائج کردیں گے تو اس کا حال بھی ویسا ہی ہوگا جیسا آج ہمارا ہورہا ہے۔
ہمارا اعلیٰ ترین دماغ ملک چھوڑ کر جارہا ہے۔ مہنگائی نے ہمارے لیے سانس لینا محال کردیا ہے۔ زندگی ایک عذاب بنتی جارہی ہے۔ نوجوان طنزیاً ”پاکستان زندہ باد کی جگہ پاکستان سے زندہ بھاگ” کے نعرے لگارہے ہیں اور ارباب اختیار ہیں کہ ان کے کانوں میں جوں ہی نہیں رینگ رہی ہے۔ یہ اس وقت بالکل اسی طرح کا کردار ادا کررہے ہیں جس طرح مرنے والی ہتھنی کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی کی انتظامیہ نے کیا تھا۔ جس وقت ہتھی نور جہاں کو سہارے کی ضرورت تھی اس وقت سب سوئے ہوئے تھے بالکل اسی طرح آج پاکستان کے عوام کوبھی سہارا دینے کے لیے کوئی موجود نہیں ہے۔
بھارت میں مقامی الیکٹرک مرسڈیز گاڑیوں کے پلانٹ لگ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش معاشی طور پر مستحکم ہورہا ہے اور افغانستان کی کرنسی آج ہم سے زیادہ مضبوط ہے اور وہ ملک جسے 60ء کی دہائی میں ایک ابھرتی معاشی طاقت تصور کیا جارہا تھا اس کے عوام آج لائنوں میں آٹا لینے کے لیے لگے ہوئے ہیں۔ کسی نے کیا خوبصورت بات کی ہے کہ 60اور 70کی دہائی میں پاکستان سے برطانیہ اور دیگر ممالک ہجرت کرنے والوں کی اولادیں آج وہاں کی حکمران بن رہی ہیں اور 1947میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کی اولادیں مفت اور سستا آٹا لینے کے لیے لائنوں میں لگی ہوئی ہیں اور یہ آٹا ایسا ہے کہ شاید جانور بھی اسے کھانا پسند نہ کریں۔ کبھی کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ ہتھنی ”نور جہاں” ہم سے زیادہ خوش نصیب تھی کیونکہ آخری دنوں میں انتظامیہ کو اس کا خیال آہی گیا تھا۔ بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم بھی اس کے علاج کے لیے پاکستان آگئی تھی۔ میڈیا میں بھی اس کے بڑے چرچے ہورہے تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر اس کی طبعیت کے بارے میں آگاہی بھی فراہم کی جارہی تھی کہ ”آج نور جہاں اپنے قدوں پر کھڑی ہوئی، آج اس نے دو قدم اٹھائے، ڈاکٹرز پرامید ہیں کہ وہ جلد ٹھیک ہوجائے گی ” ایسا ہو تو نہیں سکا لیکن وہ تھوڑی بہت توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئی۔
ادھر ہمارا حال دیکھیں۔ روز جی رہے ہیں اور روز مررہے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ میڈیا کے لیے مسائل ہی کچھ اور ہیں۔ اپوزیشن کو ہر صورت انتخابات چاہئیں ۔ حکومت کو پارلیمنٹ کی بالادستی چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ترجیحات ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ اختلافات کا شکار ہے۔ بیوروکریسی کے ٹھاٹ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب آگیا ہے لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجارہا تھا ۔ پاکستان برباد ہورہا ہے تو اس کے ارباب اختیار ”الزام الزام” کھیل رہے ہیں ۔
بات نور جہاں سے شروع ہوئی تھی اسی پر ختم کرتے ہیں۔ اس بے چاری کے ساتھ آخری ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اس کے پوسٹ مارٹم کی وڈیو بھی وائرل کردی گئی ہے۔ مطلب اب ہر چیز ہمارے لیے ایک تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ پاکستانی عوام کے حالات بھی اس وقت ”نورجہاں” سے اچھے نہیں ہیں۔ ہمیں نمائشی طور پر بچانے کے لیے تو شاید ”فورپاز” کی ٹیم کو بھی مدعو نہ کیا جائے کیونکہ ہم جو ”جہل کا نچوڑ” ہیں اپنی خاموشی کی وجہ سے اپنے منطقی انجام کی جانب گامزن ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ ہمارے ”اجتماعی پوسٹ مارٹم” کی وڈیو سے بھی ہمارے ”آقا” اسی طرح لطف اندوز ہوںگے، جس طرح آج ہم ”نورجہاں” کی پوسٹ مارٹم وڈیو سے ہورہے ہیں۔