حالیہ برسوں میں یہ چیز مشاہدے میں آئی ہے کہ چین میں مختلف شعبہ جات بالخصوص زراعت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں نے گریجویشن کے بعد دیہی علاقوں کا رخ کیا ہے اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے۔ اس ضمن میں چائنا زرعی یونیورسٹی کی جانب سے 2009 میں ”سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بیک یارڈز” کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد زراعت اور دیہی علاقوں کی ترقی میں عملی مسائل کا مطالعہ اور حل کرنا، اعلیٰ سطح کے زرعی ٹیلنٹ کو تربیت دینا اور دیہی اور زرعی جدیدکاری کی خدمت کرنا ہے۔ یونیورسٹی نے 24 صوبائی سطح کے علاقوں میں اس طرح کے 139 ”بیک یارڈ” قائم کیے ہیں جہاں ایسے نوجوان زرعی ماہرین تیار کیے جا رہے ہیں جو ملک کو زرعی اجناس بالخصوص اناج کی پیداوار میں خود کفیل بنانے کا مشن سنبھالے ہوئے ہیں۔
وسیع تناظر میں دیہی حیات کاری چین کی ایک اہم قومی حکمت عملی اور مشن ہے جسے سازگار پالیسیوں اور سرمایہ کاری کے ساتھ مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ مشن چینی نوجوانوں کو حالیہ روزگار کے دباؤ کا سامنا کرنے کے لئے زبردست مواقع اور انتخابات پیش کرتا ہے اور انہیں زیادہ امید افزا پلیٹ فارم میں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ویسے بھی دنیا میں اس وقت یہ ایک عام رجحان ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے شہروں کا رخ کرتی ہے اور بعد میں روزگار کی مصروفیات انہیں ایسے جکڑ لیتی ہیکہ اپنے آبائی دیہی علاقے سے اُن کا تعلق بس واجبی سے رہ جاتا ہے۔اس میں نوجوانوں کو بالکل بھی قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیم، مناسب روزگار،بہتر رہائش اور ایک معیاری طرز زندگی ہر شخص کی بنیادی خواہش ہے اور اسی کے لیے وہ جستجو بھی کرتا ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک بہتر مستقبل کی تشکیل شہری نقل مکانی کے سب سے بڑے اسباب میں کلیدی عنصر ہے۔
تاہم اس رجحان کے کچھ مضمرات بھی ہیں جن میں شہروں کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی،محدود شہری سہولیات پر پڑنے والا اضافی بوجھ اور ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں زراعت سمیت دیگر روایتی صنعتوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، نوجوان کارکنوں کی بڑھتی ہوئی کمی اور دیہی معیشتوں کی بحالی کے لیے اختراعی نقطہ نظر بھی بہت اہم ہے، جو یقیناً نوجوانوں کا ہی خاصہ ہے۔ اس ضمن میں سب سے ”آئیڈیل” چیز تو یہی ہو سکتی ہے کہ ریاست دیہی علاقے میں ایسا نظام زندگی لائے جس میں بنیادی ضروریات زندگی وافر دستیاب ہوں اور نوجوانوں کو روزگار سمیت دیگر شعبہ جات میں آگے بڑھنے کے مناسب اور مساوی مواقع مل سکیں، لیکن ایسا کرنے کے لیے وسائل کی دستیابی لازم ہے۔موجودہ صورتحال کی ہی بات کی جائے تو اقتصادی جمود، شدید موسمیاتی بحران اور وبا کے تناظر میں اکثر نوجوان سب سے پہلے اپنی ملازمتوں سے محروم ہوئے ہیں۔ خاص طور پر، بہت سارے ترقی پذیر ممالک میں، نوجوان اکثر غیر متناسب طور پر بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں اور انہیں اپنے خاندان کی کفالت کرنا ہوتی ہے۔
ترقی پزیر ممالک میں چین کی مثال بقیہ ممالک سے قدرے مختلف ہے کیونکہ چینی حکومت ایک طویل عرصے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی بشمول دیہی امور میں نوجوانوں کی عملی شمولیت کو فروغ دینے کی ایک مضبوط حامی رہی ہے، جس کی عکاسی متعدد اقدامات سے ہوتی ہے۔چین میں نوجوان ملک کی دیہی حیات کاری کی حکمت عملی کو نچلی سطح پر نافذ کرنے میں ہمیشہ شامل رہے ہیں۔ یہ نوجوان دیہات میں تعلیم، زراعت، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر شعبوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ لاکھوں نوجوان طلباء نے غربت کے خاتمے اور پائیدار زرعی ترقی کو آگے بڑھانے سمیت دیہی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں نے دیہی باسیوں کی آمدنی اور معیار زندگی کو فروغ دینے میں مدد کی خاطر ڈیجیٹلائزیشن، نئے کاروباری ماڈلز اور جدید مارکیٹنگ اور ویلیو چین کنیکٹیویٹی جیسے جدید طریقے اپنائے ہیں۔ ایسی سرگرمیوں نے جہاں روزگار کے مواقع پیدا کیے وہاں جدید زراعت کی بدولت غذائی تحفظ کو بھی مضبوط کیا ہے۔ چینی حکام کو بخوبی ادراک ہے کہ نوجوانوں کو دیہی علاقوں میں واپس آنے کی ترغیب دینا، ملک کی دیہی حیات کاری کی پالیسی کا ایک لازمی جزو ہے کیونکہ یہی نوجوان اپنی پچھلی نسلوں کے حقیقی ترجمان ہیں۔اس ضمن میں چینی پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں کہ نوجوان نئی مہارتیں حاصل کر سکتے ہیں، پچھلی نسلوں کے مقابلے میں بہتر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، اور دیہی علاقوں کی ترقی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں،صرف ان کی ذہن سازی اور لازمی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تناظر میں اگر چین کے عملی اقدامات کا مختصر جائزہ لیا جائے تو دیہی علاقوں میں نوجوانوں کے لیے تعلیم کے مواقع کو مسلسل بہتر بنایا جا رہا ہے تاکہ انہیں تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے لیے شہروں کی جانب ہجرت کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسرا، نوجوانوں کے لیے پرکشش کیریئر کے امکانات اور معقول اجرت کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ تیسرا، دیہی علاقوں میں سماجی خدمات کو بہتر اور وسیع بنایا جا رہا ہے۔چوتھا اور اہم ترین پہلو،ایسے دیہی نوجوان جو چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے خواہشمند ہیں انہیں مالیاتی خدمات تک رسائی دی جا رہی ہے اور پائیدار سرمایہ کاری کے طریقوں میں رہنمائی بھی جاری ہے۔ یوں نوجوانوں کو ایسے وسائل فراہم کرنے کی ہر ممکن کوششیں جاری ہیں جن سے دیہی علاقوں کی ترقی میں اُن کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے اور انہیں ملک و قوم کا کارآمد فرد بنایا جا سکے۔